گلگت بلتستان بے چین ہے۔ کچھ مدت سے اس خطے میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں شدید مشکلات اور تکالیف کا سامنا ہے۔ ان کے بُنیادی حقوق بشمول مالکانہ اور ملکیتی حقوق تک چھینے جارہے ہیں۔ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت ان کی راہ میں حائل ہورہی ہیں۔ نہ کوئی مسئلہ حل کیاجارہاہے اور نہ ہی شکایتوں کا ازالہ کرنے کیلئے کسی سسٹم کو وضع کیاجارہاہے۔
سرحد کے اِس پار ہمارے کشمیر سے گلگت بلتستان کا جغرافیائی رقبہ چار گنا بڑا ہے جو تقریباً ۷۳؍ ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ لیکن صرف تقریباً ۴؍ فیصد حصہ پر آبادی ہے باقی جنگل ، پہاڑ، گلیشئر، در ے، جھیلیں اور ندی نالے ہیں۔ یہ خطہ ہمارے کشمیرسے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہے لیکن عدم ترقی عدم دلچسپی اور فنڈز کی عدم فراہمی اس کی اس خوبصورتی کو گہن لگارہے ہیں۔
مقامی آبادی کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس صرف ۲۰؍ فیصد زمین کے مالکانہ یا ملکیتی حقوق ہیں باقی ۸۰؍ فیصد غیر ملکیتی ہے لیکن مقامی آبادی کے ہی زیر استعمال چلا آرہاہے البتہ اب حالات آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں ۔ پاکستان کی فیڈرل حکومت اس ۸۰؍ فیصد اراضی کو اپنے قبضے میں کرتی جارہی ہے۔ اس ناجائز اور زبردستی قبضہ پر مقامی آبادی برہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان جس اراضی کو اپنے قبضے میں کرتی جارہی ہے اس کے ساتھ ہی اُس خطے یا علاقے میں دستیاب قدرتی وسائل پر بھی ان کا قبضہ مستحکم ہوتا جارہاہے۔
ان قدرتی وسائل کی موجودگی سے مقامی آبادی مختلف طریقوں سے مستفید ہوتی رہی ہے۔ لیکن جب حکومتی قبضہ ہوتا جارہاہے اُسی قدر لوگ ان وسائل سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔مثلاً جو لوگ جنگل کے قریب رہائش رکھتے ہیں وہ جنگل سے اپنی روزمرہ ضروریات کی تکمیل کیلئے چند لکڑی بصورت بالن کے ٹکڑے اُ ٹھالیاکرتے تھے لیکن جنگلوں پر جنگل سمگلروں اور جنگل مافیاز کا راج اور کنٹرول مضبوط ہوتا جارہاہے۔ اس مافیا کو کئی اداروں کی سرپرستی اور معاونت حاصل ہے۔ جنگل مافیاز کی بڑھتی طاقت او رجبر عوام کیلئے ایک نیا عذاب بنتا جارہاہے۔ وہ اب اپنے چولہے کے لئے بالن کے چند ٹکرے بھی قریبی جنگل سے حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔ ا س حوالہ سے رائٹ ٹو فارسٹ ایکٹ ایساکوئی قانون موجود نہیں جوا ن لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بناسکتا ہو۔
مقامی آبادی کیلئے یہ تکلیف دہ صورتحال اس وجہ سے بھی او رزیادہ تکلیف دہ بنی ہوئی ہے کیونکہ سارے خطے میں بجلی دستیاب نہیں۔ لوڈ شیڈنگ اوسطاً ۱۸؍ سے ۲۲؍ گھنٹے تک کی جارہی ہے۔ توانائی کا دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دوسری جانب جونہی موسم سرما کا آغاز ہوجاتا ہے تو سردی کی شدت کا بھی آغاز ہوجاتاہے۔ ہر شئے یخ بستہ اور جم جاتی ہے۔ لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا ناممکن بن جاتاہے۔ چنانچہ لوگ سردیوں کے ایام کے حوالہ سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے موسم گرما کے ایام کے دوران مختلف اشیاء کا ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ گوشت، سبزیوں، پھل، دودھ،دہی ، مکھن اوردوسری گھریلو ضروریات کا ذخیرہ کرنا گھر گھر کی کہانی ہے۔
صورتحال اور سب سے بڑھ کر بُنیادی حقوق سے مسلسل محرومی سے عاجز ہوکر لوگ اب کچھ عرصہ سے سراپا احتجاج ہیں۔مقامی ایڈمنسٹریشن کسی بھی اشو کو ایڈریس نہیں کررہی ہے ۔ اس کی اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ایڈمنسٹریشن کے کلیدی عہدوں پر پاکستان سے آئے عہدیدار فائز ہیں جو اپنے لئے ہرآرائش اور عیاشی کا سامان میسر رکھ رہے ہیں جبکہ خطہ کیلئے مخصوص فنڈز کا بڑا حصہ بھی اپنی انہی عیاشیوں پر صرف کرنے کی انہیں کھلی آزادی اور اسلام آباد کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایڈمنسٹریشن کے اس طرزعمل نے بھی مقامی آبادی کے اندر برہمی، غصہ اور ناراضگی کو شدت عطاکررکھی ہے اور برملا طور سے کہہ رہے ہیں کہ جن حقوق کے حصول اور تحفظ کیلئے ان کے آبائو اجداد نے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے پر مجبور کیاتھا آج کے حکمران اُسی جیسا سلوک اور طرزعمل ان کے ساتھ روا رکھ رہے ہیں۔
حقوق کے حصول اور تحفظ کیلئے گلگت کے عوام کی تحریک وسعت اختیار کرتی جارہی ہے جبکہ علاقے میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالہ سے بھی مقامی آبادی کے کئی ایک تحفظات ہیں جن تحفظات کو حکومت پاکستان کسی خاطر میں نہیں لارہی ہے۔زور زبردستی اور جبر کے یہ طریقے مقامی آبادی کے لئے اب بتدریج ناقابل برداشت بن رہے ہیں جو ہر گذرتے دن کے ساتھ اب ان کی شروع کردہ تحریک کو جلا اور وسعت بخشنے کا موجب بن رہے ہیں۔
بُنیادی انسانی، سیاسی اور معاشی حقوق کی سلبی اور اس پر اراضی کے مالکانہ حقوق سے جبری بے دخلی دُنیا کا کوئی معاشرہ اور قوم قبول نہیں کرسکتی ہے کیونکہ ان سبھی معاملات کا تعلق لوگوں کی صحت، سلامتی اور بقاء کے ساتھ ساتھ ان کی روزمرہ معمولات سے براہ راست ہے۔ ان معاملات کا تعلق انا سے بھی ہے اور منفرد تشخص سے بھی۔ اس کی مثالیں اسی دُنیا کے ان خطوں میں موجود ہیں جہاں وسیع وعریض صحرائی یا جنگلاتی علاقوں میں رہائش پذیر مختلف اقسام اور ساخت کے جانوروں کے طرزعمل سے ملتی ہے جو کسی بھی غیر مخلوق کی مداخلت کو نہ قبول کرتے ہیں اور نہ برداشت، اپنے حقوق کی محافظت کیلئے خود جان دیتے ہیں یا مداخلت کرنے والوں کی جان چھین لیتے ہیں۔
لیکن انسانی معاشرہ ان سے مختلف ہے۔ انسان کو سوچ ، فہم، طرزعمل، طرزمعاشرت وطرز زندگی کے اسلوب حاصل ہیں ، چنانچہ ہر معاشرہ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے کی تلقین کا علمبردار ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان انسانی معاشروں نے خود جن حکومتوں کو وجود بخشا وہ صاحب اقتدار بن کر اپنی طاقت، دبدبہ اور نشہ سے چور ہوکر لوگوں کے حقوق چھین لیتے، شہری اور سیاسی آزادیاں سلب کرنے اور خوف ودہشت کے سایے سروں پر فگن رکھنے کے راستے پر گامزن ہوجاتے ہیں اور یوں وہ ظالم وجابر حکمرانوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرالیتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اور اب تک کی حکومتی قیادتوں نے یہی راستے گلگت اور بلتستان کی آبادی کو دبانے اوران کے حقوق سلب کرنے کیلئے اختیار کئے، نتیجہ یہ کہ یہ علاقہ مسلسل لوگوں کی ناراضگی اور احتجاج کا مستقل مرکز بن چکا ہے۔ لیکن اپنے جابرانہ اور ناجائز تسلط کا احساس کئے بغیر حکومت اوراس کی ایڈمنسٹریشن خطے کے لوگوں کی جائز اور انصاف پر مبنی آواز اور چیخ وپکار کو مسلسل سنی ان سنی کرتی جارہی ہے۔ اس طرح گلگت بلتستان کا سیاسی ، معاشی اور محرومی کا منظرنامہ بلوچستان کے ہم آہنگ ہوتا جارہاہے۔