واشنگٹن//
صدر جوبائیڈن نے نیتن یاہو کی حکومت کا خیر مقدم کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملک کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ علاقائی امن کے لیے دوریاستی حل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ نیز اسرائیلی کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم ہو سکے۔
جوبائیڈن نے نیتن یاہو کے لیے اپنے خیر مقدمی بیان میں کہا نیتن یاہو میرے کئی دہائیوں سے دوست ہیں میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔
تاکہ ہم ملکر ان چیلنجوں سے نمٹ سکیں اور مواقع سے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں درپیش ہیں۔ اس موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران کی طرف سے خطرات کا بطور خاص ذکر کیا۔
ان کے بیان میں مزید کہا گیا ہے جیسا کہ شروع سے ہی میری انتظامیہ کا موقف ہے کہ امریکہ دوریاستی حل کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا اور ان پالیسیوں کی مخالفت کرے گا جو دوریاستی حل کے لیے خطرہ ہوں گی، یا ہمارے مشترکہ مفادات اور اقدار سے متصادم ہوں گی۔
واضح رہے نیتن یاہو جن کے سابق ڈیموکریٹ صدر براک اوباما کے ساتھ ان کی صدارت کے دنوں میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
جمعرات کے روز چھٹی بار حکومت میں اپنے کٹر دائیں بازو کے اتحادیوں کے ساتھ آگئے ہیں۔ ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں میں بین گویر اور سموتریش بھی شامل ہیں۔ جن پر ماضی دہشت گردی کی حمایت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اب بین گویر اسرائیلی کی قومی سلامتی کے وزیر ہوں گے جبکہ سموتریش وزیر خزانہ
جب نیتن یاہو ان تحادیوں سے مل کر حکومت سازی کے عمل سے گذر رہے تھے تو امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا تھا امریکی انتظامیہ اسرائیلی حکمران اتحاد کو اس کی پالیسیوں اور عمل کی بنیاد پر دیکھے گا شخصیات کی بنیاد پر نہیں۔
اب امریکی حکام کو اس بات کی بھی امید ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ ان عرب ممالک کے وزرا کارجہ کے ساتھ جلد ملاقاتیں کریں گے جنہوں نے یہودی ریاست کو تسلیم کر رکھا ہے۔ بائیڈن کی طرف سے نتن یاہو کے لیے خیر مقدمی بیان میں کہا گیا ہے امریکہ علاقے میں استحکام اور کوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
جس کا فائدہ سبھوں کو ہوگا۔ جیسا کہ ایک جھٹکے ساتھ ابراہم معاہدے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ سفارت کاری کو فلسطین ایشو سے جوڑے رکھنے کے بجائے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت اور موقع ہے۔
تاکہ خطے کے لیے زیادہ امید افزا ویژن کے ساتھ امن قائم ہو اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بھی امن آئے۔