ہندوستان کی دو ا ساز کمپنیاں بھلے ہی آسمان چھت پر اٹھا کر چیخ وپکار کرتی رہیں کہ انہوںنے ملک کو دُنیا بھر کیلئے ادویات سازی کے حوالہ سے وہ سب کچھ دیا جودُنیا کا کوئی دوسرا ملک ابھی تک نہیں کرپایا لیکن اپنے ملک کے حوالہ سے تلخ ترین اور تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ جہاں بعض کمپنیاں معیاری اور زندگی بخش ادویات کی تیاری میں دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی وہیں غیر موثر، نقلی، او رغیر معیاری ادویات سازی کے حوالہ سے بھی ہندوستان کی ادویات ساز کمپنیوں کا کوئی ثانی نہیں۔
ابھی چند ہفتے قبل ایک ہندی ٹیلی ویژن چینل پر ادویات کے حوالہ سے ایک مفصل رپورٹ نشر کی گئی جس میں یہ سنسنی خیز دعویٰ کیاگیا کہ ملک میں سالانہ ۸۰ ہزار کروڑ روپے مالیت کی نقلی ادویات تیار ہوکر ملک بھر میںلوگوں کو پلائی جارہی ہے۔ اس رپورٹ میں نقلی دوا سازی کے حوالہ سے کئی ایک پوشیدہ گوشوں اور پھر مارکیٹنگ کے حوالہ سے کئی ایک پہلوئوں کو بھی اُجاگر کیاگیا جو حیران کن ہی نہیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے شرمناک بھی ہیں۔
اس رپورٹ کو اگر حقائق پر مبنی تصور کیاجائے تو ملک کی ڈرگ اتھارٹی اور دوا سازی کے تعلق سے معیارات اور کوالٹی کنٹرول پر نظر رکھنے والے متعلقہ اداروں کی تساہلی، بے اعتنائی ہی بے نقاب نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی واضح ہوکر سامنے آرہا ہے کہ کورپت اور بدعنوان ذہنیت کے حامل اہلکار او ر ادارے کس طرح لوگوں کی زندگیوں ،صحت اور سلامتی کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کے مرتکب ہورہے ہیں جبکہ انہی اہلکاروں اور اتھارٹیز کی شرمناک کورپشن اور معاونتی کردارکانتیجہ ہے کہ بعض دوا ساز کمپنیاں کوالٹی کنٹرول کی پروا کئے بغیر نقلی اور غیر موثرادویات سازی کی سمت میں حوصلہ پاتی جارہی ہیں۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حالیہ چند برسوں کے دوران دُنیا کے کئی ممالک نے ہندوستان کی کئی ایک دوا ساز کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کو غیر معیاری اور کوالٹی کنٹرول سے باہر پاکر ان ادویات کی اپنے ممالک میں خرید وفروخت پر پابندی لگادی بلکہ متعلقہ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے معاہدوں کو بھی کالعدم قراردیاہے۔
بات یہی پر ختم نہیں ہوتی ہے، کئی ممالک میں ملک کی بعض دواساز کمپنیوں کی طر ف سے تیار کھانسی کی ادویات کے استعمال کے نتیجہ میں درجنوں بچوں کی اموات بھی ہوچکی ہے۔ گیمبیا میں ۷۰؍ معصوم بچوں کی موت کے بعد اب ازبکستان سے یہ دلخراش خبر ہے کہ نوڑیا(اُتر پردیش) میں واقع ایک دوا ساز کمپنی ماریوان بائیوٹیک کا تیار کردہ کھانسی سرپ پینے سے ۱۸؍ بچوں کی موت واقع ہوئی ہے۔ اگر چہ حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو نظرانداز کردیاتھا لیکن بعدمیںکمپنی پر اُترپردیش کی متعلقہ اتھارٹی نے موقعہ پر تحقیقات کرنے پر اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کمپنی نے دوا سازی کے دوران ’’شیڈول M ‘‘کے تحت مقررہ معیارات کو نظرانداز کردیا ہے۔ چنانچہ اس تحقیقات کی روشنی میں کمپنی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فی الحال ادویات سازی سے اجتناب کرے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جموںوکشمیر کے ادھمپور میں بھی ایسی ہی ایک غیر معیاری اور نقلی کھانسی کی سرپ پینے سے تقریباً ڈیڑھ درجن بچوں کی موت واقع ہوئی تھی لیکن حیرت انگیز طور سے مرتکب کمپنی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی بادی النظرمیں ان بچوں کے لواحقین کو انصاف ملا۔
ادویات ساز کمپنیاں اپنی تیار ادویات کی مارکٹنگ کیلئے کیا کچھ نہیں کرتی اس پر حال ہی میں اس حقیقت سے پردہ اُٹھایاگیا کہ کس طرح ایک کمپنی نے ’ڈولو ۶۵۰‘ نامی ٹکی Tabletکی فروخت یقینی بنانے کیلئے ایک ہزار کروڑ روپے کی رشوت اداکی۔ جو کمپنی محض اپنی ایک مخصوص پروڈکٹ کی دوائی کی مارکیٹنگ کو یقینی بنانے کیلئے ایک ہزار کروڑ روپے رشوت اداکرے ظاہر ہے کہ منافع کی گنجائش کس حد تک ہوگی اور جس دوائی کی مارکیٹنگ کیلئے اس حد تک گرجانے کو ترجیح دی جائے اور پھر اس حرکت کو غیر اخلاقی بھی تصور نہ کی جائے تو بات پھر بہت حد تک آگے بڑھتی واضح ہوتی جارہی ہے۔
ہم یہاں جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرکے حوالہ سے جب اس مخصوص منظرنامے میں بات کررہے ہیں تو بہت بڑی بدقسمتی اور ہمار ا مجموعی المیہ یہ ہے کہ ہماری کوئی سنتا نہیں اور نہ ہی ہماری چیخ وپکار کو جموں وکشمیر کا راج بھون سے لے کر جموں اورسرینگر میں واقع انتظامیہ کے ہیڈ کوارٹر …نیو سیکریٹریٹ میں کلیدی عہدوں پر متمکن بڑے عہدیدار اس چیخ وپکار کو کسی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
ہم عرصہ سے چلارہے ہیں کہ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرمیںغیر معیاری ، غیر موثر اور نقلی ادویات کی بھر مار ہے بلکہ ملک کی مختلف دوا ساز کمپنیوں جن کے بارے میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ وہ اپنی بعض پرڈکٹ ملک کیلئے الگ اور کشمیر کیلئے الگ سے لیبل تک استعمال کررہی ہیں جبکہ ۸۰؍ فیصد ادویات جو کشمیرمیں بازاروں میں دستیاب ہیں کے بارے میں مسلسل دعویٰ کیاجارہاہے کہ وہ نقلی اور غیر معیاری ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔
کشمیرمیں نقلی اورغیر معیاری ادویات کی کھپت، خریدوفروخت کیلئے جو لوگ اور ادارے مبینہ طور سے ملوث بتائے یا تصور کئے جارہے ہیں ان میں ادویات فروخت کرنے کے اوٹ لیٹ، ایجنٹ، کچھ بڑے سٹاکسٹ اور بیوپاری خاص طور سے قابل ذکر ہیں جبکہ مخصوص کردار اور فکر کے حامل ڈاکٹروں کے کچھ جھنڈ اس کاروبار میں معاونت کررہے ہیں۔ خود میڈیکل حلقوں میںاس باپت بھی قصے اور کہانیاں زبان زدہ عام ہیں کہ کچھ دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے تیار وہ ادویات جو ابھی ٹرائل کے مراحل سے ہی گذر رہی ہوتی ہیں لیکن جن ادویات کو ابھی حکومت کے متعلقہ اداروں کی طرف سے قابل استعمال کلیرینس کی سند عطا نہیں کی ہوتی ہے کشمیرمیں مریضوں کوکھلائی اور پلائی جارہی ہے۔ یہ ایک سنسنی خیز انکشاف بھی ہے اور مجرمانہ عمل بھی۔ لیکن اس ضمن میں بھی جموںوکشمیر کی ڈرگ کنٹرول اتھارٹی بے اعتنا ہے ، کوئی حرکت، کوئی کردار اور کوئی کارروائی اب تک منظرعام پر نہیں آسکی۔
کشمیر کے طول وارض میں امراض کی بڑھتی شرح کو ماہرین طب اسی غیر معیاری اور نقلی ادویات کی مارکیٹ میںبھرمار، بعض مخصوص فکر کے ڈاکٹروں کی دانستہ تجویز، دوا فروخت کرنے والے کاروباریوں اور کمپنیوں کے ایجنٹوں کی بڑھتی سرگرمیوں کا براہ راست شاخسانہ تصور کررہے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مختلف امراض کی بڑھتی شرح کا تعلق کشمیرکے موسمی حالات اور کھانے پینے کی غلط عادات سے بھی ہے لیکن بحیثیت مجموعی ادویات کو سب سے بڑا فیکٹر تصور کیاجارہاہے۔ کشمیرکو اس لعنت سے کب اور کون چھٹکارا دلائے حال اور مستقبل کے حوالہ سے اُمید کی کوئی کرن نظرنہیں آرہی ہے۔ اللہ خیر کرے!