وزیراعظم پیکیج کے تحت کشمیر میں تعینات پنڈت ملازمین اپنے کچھ ساتھی ملازمین کی دہشت گردوں کے ہاتھوں سفاکانہ ہلاکتوں سے خوفزدہ ہوکر جموں منتقل ہوئے اور جموں میں بغیر تنخواہوں کے بیٹھے حکومت سے اپنے لئے ایک ٹرانسفر پالیسی مرتب کرکے لاگو کرنے اور کشمیرمیں حالات ٹھیک ہونے تک جموں میں مختلف محکموں سے وابستہ ہوکر تعیناتی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
یہ ملازمین گذشتہ کچھ مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں اور پنامہ چوک میں دھرنا پر بیٹھے ہیں ۔ ان ملازمین کی مانگ کو مختلف عوامی اور سیاسی حلقوں نے انسانی ہمدردی کے طور حمایت دی ہے اور حکومت سے بھی وقتاً فوقتاً مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی جموں منتقلی اور تعیناتی کے مطالبے کو انسانی ہمدردی کے ناطے تسلیم کرلیاجائے تاکہ یہ لوگ اطمینان سے زندگی گذار سکیں۔حکومت بھی گاہے گاہے ان کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کی یقین دہانی کراتی رہی ہے جبکہ ان کی تقرریوں اور سینارٹی کے تعلق سے مروجہ قوانین میں ترامیم کرکے چند قدم آگے بڑھ کر ان کی سینارٹی کا مسئلہ حل کرلیا ہے اگر چہ ایڈمنسٹریشن کے اس اقدام سے پہلے سے تعینات ملازمین کے سینارٹی کے حوالہ سے کئی ایک مفادات اور حقوق منفی طور سے متاثر ہوئے ہیں۔
لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ان ملازمین کے بارے میں اگلے روز اچانک اور غیر متوقع طور سے یہ اعلان کیا کہ گھر بیٹھے کسی کو تنخواہ نہیںدی جائیگی اور ملازمین سے کہا گیا کہ وہ کشمیر جاکر اپنے فرائض اداکریں۔ یہ اعلان ان ملازمین پر بجلی بن کر گرا، غالباً وہ ایسے کسی فیصلے یا اعلان کی توقع نہیں کررہے تھے، ملازمین نے اس پرزبردسست ردعمل ظاہرکیا، جموں میں مقامی بی جے پی کے دفتر کا گھیرائو کیا اور احتجاج کیا۔ بی جے پی کے کچھ لیڈروںنے احتجاجیوں کو یقین دلایا کہ ان کے لئے ٹرانسفر پالیسی لاگو ہوکر رہیگی جبکہ ایک لیڈر نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر ٹرانسفر پالیسی لاگو نہیں کی گئی تو وہ پارٹی چھوڑ کر جائیںگے۔
بُنیادی اشو کیا ے ؟ ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں، ان دھمکیوں کے پیش نظر وہ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیرمیںوہ محفوظ نہیں ہیں۔ خود حکومت بھی اس بات کا اعتراف کررہی ہے کہ گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ملازمین کو چار بار دھمکیاں ملی ہیں۔ دھمکیوں میں ان سے کہا جارہاہے کہ وہ کشمیر سے چلے جائیں، جس کے ردعمل میں لیفٹنٹ گورنر کا کہنایہ ہے کہ ’’اس کا فیصلہ ہم کریں گے کہ کس کو رہناہے ‘‘۔
اس اشو کے کچھ اہم پہلوہیں۔ ایک یہ کہ حکومت ملازمین کے لئے ٹرانسفر پالیسی لاگو کرکے انہیں اگر جموں میں منتقل ہونے اور تعینات کرنے کی اجازت دیتی ہے تو حکومت کے اس اقدام کو یہ سمجھا جائیگا کہ حکومت دہشت گردوں کی دھمکیوں کے آگے جھک گئی اور سرنڈر کرلیا۔ اس صورت میں دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ دوسرا یہ کہ جو غیر کشمیری ملازمین مثلاً جن کا تعلق جموں صوبے سے ہے اور جو مختلف زمروں کے تحت کشمیر میں تعینات ہوچکے ہیں اور مختلف محکموں میں کام کررہے ہیں وہ بھی اسی ٹرانسفر پالیسی کے اپنے اوپر اطلاق کا مطالبہ کرنے کیلئے سڑک پر آجائیں گے ۔ جس سے کئی مسائل اور نئی پیچیدگیاں پیدا ہو ں گی۔ خود ایسے ملازمین کیلئے بھی نئے درد سر پیدا ہوسکتے ہیں خاص کرانہیں اپنے بچوں کو جو کشمیرمیں سکولوں میںزیرتعلیم ہیں کی مائیگریشن کا بہت بڑا درد سر بھگتنا پڑسکتا ہے۔ حکومت ایسے کسی منظرنامے کے وجود کو اُبھرتا دیکھنانہیں چاہئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ملازمین کو واپس کشمیر جانے کا مشورہ دیا ہے لیکن کچھ استثنیٰ بھی رکھے ہیں۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ حلقے سوال کررہے ہیں کہ وزیراعظم پیکیج کے تحت تعیناتیوں کا عمل آج کی تاریخ کا نہیں بلکہ اس پیکیج کی منطوری کئی سال پہلے دی گئی تھی۔اس پیکیج کیلئے خود پنڈت برادری مطالبہ کرتی رہی۔ کیونکہ ان کا باربار یہی کہنا تھا کہ ان کے تعلیم سے فارغ بچے بے روزگار ہیں لہٰذا کشمیر میں ملازمتوں کے حوالہ سے ان کی جونمائندگی بنتی ہے وہ ان کے حق میں تفویض کی جائے۔ حکومت نے بحیثیت مجموعی ان ملازمین کیلئے مکمل اور جامع تحفظات کے ساتھ سکیورٹی کے بندوبست کئے، جن سکیورٹی بندوبستوں کا وقفے وقفے سے جائزہ لیاجارہاہے۔
سوال یہ بھی کیاجارہاہے کہ ایک طرف ترک سکونت اختیار کرنے والی پنڈت برادری مسلسل یہ مطالبہ کررہی ہے کہ ان کی کشمیر اپنے گھروں کی اور واپسی کا بندوبست کیاجائے تو دوسری طرف ملازمین کشمیرمیںخدمات انجام دینے کیلئے تیارنہیں۔اگر چہ ان دونوں کے درمیان تضاد واضح طور سے نظرآرہاہے لیکن چونکہ معاملہ صحت ،سلامتی اور بقاء سے جڑاہوا ہے لہٰذا نہ صرف کشمیر کے اندر بلکہ کشمیر سے باہر بھی مختلف حلقے حکومت سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ ان ملازمین کو فی الحال جموں منتقل کرکے جموں میںتعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ یہ ایک ایسامعاملہ ہے جس کا برہ راست تعلق انسانی ہمدردی سے ہے، صحت سلامتی اور بقاء سے ہے ۔ لہٰذا صحت، سلامتی اور بقاء کو کسی دوسرے نظریے یا ازم یاکسی انتظامی مصلحتوں سے منسلک کرکے قربان گاہ کی بھینٹ چڑھایا نہیں جاسکتا ہے۔
کشمیرکا سا را خطہ گونا گوں مسائل سے جھوج رہا ہے اور جموں خطہ بھی جھوج رہے گوناگوں مسائل سے مستثنیٰ نہیں۔ حکومت اور ایڈمنسٹریشن کو دونوں خطوں کے ان گہرے اور سنگین نوعیت کے مسائل اور معاملات کی طرف توجہ مبذول کرنا پڑرہی ہے اور آئے روز کے چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونا پڑرہاہے۔ ان جھوج رہے مسائل اور معاملات میں نہ صرف کشمیری پنڈت ملازمین کے معاملات ہی شامل ہیں بلکہ آنگن وارڈی ورکروں، ہیلپرس ، ۶۰ہزار کے قریب ایڈہاک ملازمین ، نوکریوں کی دہلیز پر دستک دینے والے اہل اُمیدوار جن کے انتخابات دھاندلیوں اور ملٹی کروڑ سکینڈلوں کے انکشافات کے بعد کالعدم قرار دیئے جاچکے ہیں کے علاوہ سماج کے دوسرے کئی طبقوں سے وابستہ لوگوں کے مسائل اور معاملات بھی شامل ہیں۔
ملازمین کے یہ سارے طبقے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جس کے پیش نظر جموںوکشمیر میں ایڈمنسٹریشن کے سارے پہیے محوحرکت ہیں، ان ملازمین کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔سیکریٹریٹ میں بیٹھے چند بابو اس سو چ سے باہر آجائیں کہ وہی حرف آخر ہیں اور صرف انہی کی بدولت انتظامیہ حرکت میں ہے۔ یہ فیلڈ میں کام کرنے والے ورکر اور ملازمین ہیں جن کے کاندھوں پر عوامی خدمات کا اصل بوجھ ہے ۔لہٰذا حکومت کی یہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے ان بازوں اور ٹانگوں کی صحت سلامتی اور بقاء کا ہر سطح پر خیال رکھے اور ان کے جائز اور واجبی مطالبات پر ہمدردانہ رویہ اختیار کریں۔ ملازمین کے ان طبقوں پر یہ کوئی احسان نہیں بلکہ یہ ان کا حق ہے۔