مطالبات اور مانگوں کو لے کر سوسائٹی کا کوئی نہ کوئی طبقہ سڑکوں پر نظرآرہاہے۔ کوئی پرامن طور سے اپنی مانگوں کو پیش کررہاہے تو کوئی چلا کر، کوئی دھمکیوں پر اُتر آتا ہے تو کوئی حکومت کو مہلت دیتا سنائی دے رہاہے۔
سڑک، بجلی، پانی، تنخواہوں کی ادائیگی، ہزاروں کی تعداد میں سالہاسال سے خدمات انجام دیتے آرہے ہزاروں ایڈہاک ملازمین، کشمیرمیں وزیراعظم پیکیج کے تحت تعینات پنڈت ملازمین تحفظ اور جموں میں فی الحال تعینات کرنے، آنگن واڑی ورکرس اور ہیلپر ، وقف جائیدادوں کے کرایہ دار، لینڈ لیز کے تحت کراریہ دار، ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کو منہدم کرنے کی دزمیں آنے والے متاثرین، فارسٹ رائٹس ایکٹ کے تحت مستفید ہونے کا حق رکھنے والے آبادی کے طبقے ، وغیرہ وغیرہ اپنے اپنے مطالبات کو لے کر سراپا احتجاج نظرآتے ہیں۔
ان احتجاج کرنے والوں کو اکثر اوقات پولیس پیچھے ہٹاتی نظرآرہی ہے لیکن ان کے مطالبات کو ہمدردی کے ساتھ سنا جائے اور ازالہ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے کی ضمن میں کوئی ایک بھی اعلیٰ عہدیدار موقعہ پر داد رسی کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ طرز عمل ان بلند وبالا دعوئوں کے بالکل برعکس ہے جو اس حوالہ سے کئے جارہے ہیں کہ لوگوں کے مسائل اور معاملات کاحل تلاش کرنے کیلئے انتظامیہ کو گھر کی دہلیز تک پہنچانے کے اقدامات نتائج کے حوالہ سے اب ثمر آور ثابت ہورہے ہیں۔اس حوالہ سے بیک ٹو ولیج (گائوں کی اور)پروگراموں کا خاص طور سے حوالہ دیاجارہاہے۔ لیکن اس حوالہ سے بھی کئی ایک علاقوں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جن معاملات ، مطالبات اور تجاوزات کو بیک ٹو ولیج مرحلہ اول کے دوران پیش کئے گئے تھے چوتھا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچ جانے کے باوجود وہ معاملات ابھی تشنہ طلب ہی ہیں۔
یہ تصویر کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ معاملات اور مشکلات سایہ فگن نہ ہوتے اگر جموں وکشمیر کے محدود وسائل اور گذشتہ ۷۵؍ برس کے دوران حاصل مرکزی مالی امداد کو مناسب اور معقولیت کے ساتھ تصرف کو یقینی بنایاگیا ہوتا۔ محدود وسائل کے ہوتے یہ ممکن نہیں کہ آن واحد میں لوگوں کو درپیش مختلف نوعیت کے مسائل اور معاملات حل ہوسکیں، ان کا حل تلاش کرنے کیلئے وقت بھی درکار ہے اور فنڈز بھی مطلوب ہیں۔ وقت تو ہے لیکن فنڈز مطلوبہ ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں۔
مسائل اور مشکلات کیوں شیطان کی آنت کی طرح طوالت اختیار کرتے جارہے ہیں اس کی دیگر چند وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انتظامیہ کے مختلف شعبوں میںکورپشین اور بدعنوان طرزعمل لاکھ کوششوں اور تادیبی اقدامات کے باوجود موجود ہے جبکہ دفتری گھس گھس ، نااہلیت اور دیگر نامناسب اپروچ یا دوسرے الفاظ میں فرسودگی پر حد سے زیادہ انحصار خاص طور سے قابل ذکر بھی ہے اور شرمناک بھی ہے۔مثلاًبجلی میٹروں کی تنصیب کے حوالہ سے معاملہ کا ہی تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جموںوکشمیر میںسابق حکمرانوں کی سرپرستی میںمحکمہ پی ڈی ڈی کے ارباب اختیارات نے گذشتہ ۱۵؍ برسوں کے دوران تین ڈیجیٹل میٹر یکے بعد دیگرے خرید کرکے نصب کرادیئے۔ پہلا انتخاب اگر کسی وجہ سے غلط ثابت ہوا تودوسرا بھی کیوں ناقابل اعتماد ثابت ہوا اور اب میڈ ان چین کے ڈیجیٹل میٹر انہی بستیوں اور کالونیوں میں نصب کرائے جارہے ہیںجہاں پہلے سے ڈیجیٹل میٹر نصب اور موجود ہیں۔ جبکہ ان بستیوں اور کالونیوں کو مسلسل حاشیہ پر رکھا جارہاہے جہاں سرے سے ہی میٹر نصب نہیں کئے گئے تھے یہ سرکاری وسائل اور فنڈز کا بے دریغ زیاں نہیں تو اور کیا ہے لیکن اس کے باوجود محاسبہ نہیں؟
بہرحال جو لو گ اپنے مطالبات اور معاملات کو لے کر سڑکوں پر آرہے ہیں وہ اس اعتبار سے حق بہ جانب ہیں کہ انہیں مشکلات اور مسائل کاسامنا ہے اور مسلسل اس صورتحال سے جوجھتے آرہے ہیں ۔ وہ سیٹ اپ سے شاکی ہیں اور شکوہ زبان پرلانے کیلئے مجبور ہیں۔
اب سڑکوں پر نظرآرہے اس لینڈ سکیپ میں وہ ہزاروں اُمیدوار بھی نظرآرہے ہیں جو انٹرویوز کے بعد مختلف سرکاری عہدوں کیلئے منتخب ہوئے لیکن ان کے انتخابی لسٹ کو کالعدم قرار دینے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور وہ اُمیدوار بھی جنہوںنے مہینوں پہلے انٹرویوز دیئے اور اب سلیکشن کے منتظر تھے ان کے انٹرویوز بھی کالعدم قرار دیئے جارہے ہیں۔ اس تعلق سے اب تک کم سے کم چار سلیکشن لسٹ ؍انٹرویوز کو کالعدم قراردیاگیا ہے جبکہ چند ایک کے بارے میں معاملات عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ سلیکشن پراسیس ؍انٹرویوز سے وابستہ عہدیداروں بشمول اوٹ سورس ایجنسیوں کو ملٹی کروڑ سکینڈلز میں ملوث پا کر ان کے خلاف کارروائیاں جارہی ہیں۔
دوسری جانب تعلیم یافتہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی صف میں بے روزگاری کا گراف ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہاہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی نامی ادارے کی جانب سے حال ہی جاری ایک اور سروے رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ جموں وکشمیرمیں بے روز گاری کا شرح تناسب میں مزید اضافہ ہوا ہے جو اکتوبر کے اختتام پر ۲۳ عشاریہ ۹؍فیصد تھا جو ہریانہ اور راجستھان کے بعد تیسرا نمبر ہے۔یہ منظرنامہ بھی بحیثیت مجموعی مایوس کن ہے۔
ایک اور پریشان کن فیصلہ چند روز قبل ٹریبونل کی جانب سے صادر ہوا جس میں کہاگیا ہے کہ ایڈہاک ملازمین اپنی مستقلی کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ مختلف سرکاری ونیم سرکاری اداروں سے وابستہ کتنے ہی ایسے ملازمین ہیں جو ٹریبونل کے اس فیصلے کی روشنی میں دل برداشتہ اور مایوسی کا شکار ہوئے ہونگے۔ایڈہاک خطوط پر جس کسی کو بھی ملازمت میں لیاجارہاہے بے شک وہ برسرروزگار تو ہوجاتے ہیں لیکن ایڈہاک کی مدت ملازمت ختم ہوتے ہی وہ پھر سے بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی عمر کی حد کو بھی پار کررہے ہوتے ہیں یہ فیصلہ ان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
حکومت کا انتخاب عوام کرتے ہیں اس اُمید اور توقع کے ساتھ کہ جن کا وہ انتخاب کرتے ہیں وہ قابل اور ذہین ہیں، ذمہ داریاں سنبھال کروہ لوگوں کو درپیش گوناگوں معاملات اور مسائل کا حل تلاش کرکے راحت رسانی کا کام کریں گے۔ لیکن عموماً منظرنامہ مختلف بن کر سامنے جلوہ گر ہوتا ہے۔ اقتدار سے باہر سیاستدان جو باتیں کرتے ہیں، جو وعدے عوام سے کرتے ہیں اور جن یقین دہانیوں کا سہارا لے کر وہ اقتدار کی مسندپرجلوہ افروز ہوجاتے ہیں پھر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اس فوبیاں میںمبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ جوکچھ کہہ اور کررہے ہیں وہ ہی ٹھیک اور درست ہے اور جو لوگ کہہ اور کررہے ہیں وہ غلط ہے۔