ڈاکٹر فارو ق عبداللہ کے حالیہ بیان کے ادارے اور فوج جموں وکشمیر میں مجوزہ الیکشن سے دور رہیں اور کوئی مداخلت نہ کرے پر انہی کی پارٹی سے سالہاسال تک وابستہ رہے اور ان کے بہت ہی قریب معتمد ساتھی دیوندر سنگھ رانا جو پارٹی سے مستعفی ہوکر حکمران جماعت بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں نے اپنے ردعمل میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ ۱۹۹۶ء کے الیکشن میں دھاندلیاں کی گئیںاور کامیابی کا عمامہ نیشنل کانفرنس کے سرباندھا گیا۔ دیوندر سنگھ رانا کا کہنا ہے کہ اس پس منظرمیںفاروق عبداللہ کو یہ شو بھانہیں دیتا کہ وہ فوج کو بدنام کرے۔
کچھ مہاورے ہیں ، کچھ اصطلاحیں ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، ایک یہ بھی ہے کہ جس کا اپنا گھر شیشے کا ہو وہ دوسروں کے گھر پر پتھر پھینکا نہیں کرتے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب سیاسی میدان سے وابستہ کسی شخصیت نے ۱۹۹۶ء کے الیکشن کے بارے میں بھی دہلی کی مکمل آشیرواد کے ساتھ دھاندلیوں اور فراڈ کا دعویٰ کیا ہو۔ جموں وکشمیر کی انتخابی تاریخ بے حدداغدار ہے، اتنی داغدار کہ اس کی مثال دُنیا کے کسی بھی حصے کے تعلق سے الیکٹورل پراسیس کے حوالہ سے شاہد ہی ملے، ۱۹۴۷ء میں الحاق کے بعد سے۱۹۷۵ء تک الیکشن کی تاریخ بے حدداغدار ہے، اتنی داغدار کہ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر کا نہ صرف جمہوریت پر سے اعتماد ختم ہو گیا بلکہ الیکشن کمیشن سمیت باقی سبھی الیکشن سے منسلک اداروں پر سے بھی بھروسہ اُٹھ گیا۔
البتہ ۱۹۷۷ء میں یہ بھروسہ قدرے پھر بحال ہوا جب وزیراعظم آنجہانی مرار جی ڈیسائی نے مداخلت کی اور الیکشن پراسیس میں کسی بھی حوالہ سے دھاندلیوں سے منع کرکے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل کو مکمل شفافیت کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچایا۔ لیکن کہاوت ہے کہ چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہیں، ۱۹۸۷ء کے الیکشن کے سارے عمل کو فراڈ کے رنگ میں رنگ دیا گیا، زمینی (انتظامی) سطح پر کلیدی عہدوں پر فائز جن کرداروں نے اس فراڈ کو عملی روپ دینے کیلئے اہم ترین کردار اداکیا ان میں سے کچھ ایک داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں جبکہ کچھ ایک حیات ہیں اور ان میں سے بھی کچھ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔
۸۷ء کے الیکشن کی کہانی ، قصے ، داستانیں ،طریقہ کار اور اپروچ کشمیر کی عصری اور الیکشن پراسیس کے حوالہ سے تاریخ قصہ پارینہ نہیں بلکہ ان داستانوں اور طریقہ کار کے بطن سے جوکچھ جنم پایا اس کا خمیازہ کشمیرہی نہیں بلکہ سارا ملک آج کی تاریخ میں بھگت رہا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے الیکشن کے بارے میں مرحوم مفتی محمدسعید بھی منڈیٹ چوری کا دعویٰ کیا کرتے تھے لیکن اپنے دعوئوں کو سچ ثابت کرنے کے لئے انہوںنے کوئی مخصوص واقعہ یا معاملہ کی نشاندہی کرکے اسے سامنے نہیں لایا۔
اور اب دیوندرسنگھ رانا کا ۱۹۹۶ء کے الیکشن میںدھاندلیوں کا سنسنی خیز انکشاف نے الیکشن پراسیس کے تعلق سے ایک اور نیا پنڈارا بکس کھول دیا ہے۔دیوندرسنگھ جس دور کا حوالہ دے رہے ہیں اُس دور میں وہ خود نیشنل کانفرنس کے ساتھ وابستہ ہی نہیں تھے بلکہ فیصلہ سازی اور فیصلوں کی عمل آوری کے حوالہ سے اہم کردار اداکرتے تھے۔ یہاں تک کہ کشمیر کے کچھ سنجیدہ حلقوں میں یہ چرچے عام تھے کہ دیوندر سنگھ ڈاکٹر فاروق ا ور ان کے بیٹے عمر عبداللہ کیلئے اے ٹی ایم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس تعلق سے ان کے الیکشن کو میڈ ان دہلی بنانے کے دعویٰ کو یونہی اختراعی یا خیالی تصور کرکے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔
یہ ایک سنگین معاملہ ہے جو ایک بار پھر جموںوکشمیر کے تعلق سے الیکشن کمیشن آف انڈیا،جموں وکشمیر الیکشن اتھارٹی، مقامی انتظامیہ اور دہلی کے مخصوص کردار کے آگے بڑے بڑے سوالیہ لگا رہی ہے۔ ان سارے سوالوں کا اہم سوال یہ ہے کہ جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر میں کیوں جمہوریت اور جمہوریت سے وابستہ دوسرے اہم ستونوں کی بُنیادوں کو عموماً بلکہ خاص سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر مضبوط ومستحکم ہونے کا موقعہ فراہم نہیں کیاجارہاہے ،کیوں ٹنل کے اِس پار الیکشن کا ان خطوط پر اہتمام و انعقاد ممکن نہیں بنایاجارہاہے جس الیکشن کا اہتمام وانعقاد ٹنل کے اُس پار باالخصوص ملک کے طول وارض میں دیکھا جارہاہے۔ کیا فراڈ اور دھاندلیوں سے عبارت کا کشمیر کے ساتھ چولی دامن کا رشتہ قرار پایا ہے، اس کے برعکس کیا کشمیر نے انتہائی پُر آشوب حالات، گولیوں اور بموں کی گن گرج اور دھمکیوں کے سایوں میں ۸۰؍ فیصدتک بیلٹ کا راستہ اختیار کرکے اپنے امن پسند اور جمہوریت پر یقین کا بار بار باالخصوص گذرے ۳۰؍ برسوں کے دوران مظاہرہ نہیں کیا؟
بہرحال اب جبکہ دیوندر سنگھ رانا ۱۹۹۶ء کے الیکشن کو فراڈ اور دھاندلیوں سے عبارت قرار دے کر اپنی سابق سیاسی پارٹی کو اس فراڈ کا ثمرہ قرار دے رہے ہیں اس حوالہ سے جو دیگر تفصیلات ہیں ان کوسامنے لا کر عوام کے روبرو پیش کرنے کی اب اخلاقی ذمہ داری دیوندرسنگھ پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ اب تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ ۱۹۷۷ء کے بعد اگر کوئی الیکشن غیر جانبدارانہ اور فراڑ کے بغیر کشمیر میں ہوئے ہیں تو وہ ۱۹۹۶ء کا الیکشن تھا لیکن اب اس الیکشن کو بھی داغدار قراردیاجارہاہے۔ اُس الیکشن کوداغدار جتلانے والا اور کوئی نہیں خود پارٹی کا ایک سابق لیڈر ہے، جو اُس گھر کا بھیدی کی حیثیت رکھتا ہے البتہ ۱۹۹۶ء کے الیکشن سے قبل عام چرچہ یہی تھا کہ نیشنل کانفرنس کسی الیکشن عمل کا حصہ بننا نہیں چاہتی تھی لیکن دہلی نے انہیں الیکشن میدان میں کود نے اور بھر پور حصہ لینے کی تحریک دی اور کافی حد تک الیکشن اخراجات کے مد میں مالی مدد بھی کی۔ جس مالی امداد کا ایک حصہ مرحوم مفتی محمدسعید کے حق میں بھی چلا گیا عام چرچہ یہی تھا جبکہ ان کی پارٹی سے وابستہ کچھ ذمہ دار اس بارے میں مفتی سے سوال بھی کیاکرتے تھے لیکن بقول ان کے مفتی ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیاکرتے تھے۔
رانا کے تازہ ترین دعویٰ کے تناظرمیں جموں وکشمیر میں آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے حوالہ سے نئے خدشات، نئے سوالات، نئے تحفظات ، فطرتی ردعمل کے طور اُبھر رہے ہیں جبکہ کچھ حلقوں میں یہ رائے بھی بتدریج اُبھر رہی ہے کہ جس الیکشن پراسیس میں حصہ دار بن کر بھی رائے دہندگان کی خواہش اور پسند اور ناپسند کا احترام ملحوظ خاطر نہ رکھے جانے کی روش اور روایت بطور پالیسی کے قائم ہو اور جس شفافیت اور غیر جانبدارانہ طرزعمل کا دعویٰ بھی اور عملی ثبوت بھی خود الیکشن کمیشن ملک میں فراہم کررہا ہو لیکن کشمیر کے حوالہ سے اس کا طرزعمل اور انداز دوسرا رُخ اختیار کررہا ہو اُس الیکشن کا حصہ دار بن جانے کا کون سے اخلاقی اور جمہوری طرزعمل کے حوالہ سے شرکت کا جواز بن جاتا ہے۔