جمہوریت کو متحرک، فعال اور تازہ دم رکھنے کیلئے لازمی ہے کہ ہر سٹیک ہولڈر اپنا مٹھی بھر مگر مثبت کردار اداکرے۔ کوئی ایک بھی سٹیک ہولڈر کسی بھی حوالہ سے اپنے کسی مفاد، ابن الوقتی، اندھی سیاسی یا غیر سیاسی، شعوری یا غیر شعوری یا وقتی اور لمحاتی مصلحتوں کے پیش نظر لغزش کا ارتکاب کرے تو جمہوریت کی بُنیادیں تہہ وبالا ہوجاتی ہیں۔
جب ہم جمہوریت ، جمہوری سیٹ اپ ، جمہوری مزاج کے حوالہ سے بات کرتے ہیں تو پہلی نگاہ یا توجہ اپنے ہی کشمیرکی طرف مبذول ہوجاتی ہے اور یہ بات شکوہ کی صورت میں زبان پر آہی جاتی ہے کہ اگر وقت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے محض اندھی سیاسی مصلحتوں سے مطیع ہوکر لمحاتی اور غیر دانشمندانہ فیصلے نہ لئے ہوتے تو شاید کشمیر نے ۱۹۸۷ء کے فوراً بعد تباہی وبربادی کی دہلیز پر دستک نہ دیئے ہوتے۔
کشمیرکے حوالہ سے یہ تاریخ کاایک ایسا تلخ سچ ہے جس کی تلخ یادیں اور ان کے بطن سے مابعد پیش آمدہ حالات، معاملات واقعات آج کی تاریخ تک تاریخ کاان مٹ حصہ بن چکی ہیں جن سے انکار کی گنجائش ہے اور نہ ہی تردید کا کوئی بہانہ! تلخ سچ یہ ہے کہ کشمیرمیں الحاق کے فورا بعد جمہوریت اور جمہوری سیٹ اپ کو نشانہ بنایاگیا،الیکشن کے نام پر سلیکشن اور اس سلیکشن کو میڈ ان دہلی کے تابع کردیاگیا، کٹھ پتلی مہروں کو تخت نشین بنایاگیا جنہوں نے اپنے حواریوں ، چیلے چانٹوں اور مراثیوں کی وساطت سے غنڈہ گردی سے عبارت کلچر کو پروان چڑھایا بلکہ جمہوریت ، قانون اورآئین کا ہر طلوع صبح کے ساتھ ایک ایک جنازہ نکالا جاتا رہا۔
۱۹۷۵ء میں شاید غلطی کا احساس ہوا لیکن بہت جلدی بلکہ کچھ ہی برسوں کے اندر اندر پھر الیکشن کے نام پر جمہوریت کا رہا سہا جنازہ نکالاگیا۔ اس جنازہ نے جو زخم کشمیرکو دیئے ، کشمیر کے ہر طبقہ آبادی کو دیئے، ہر گھر او ر ہر خاندان کو دیئے اُن کی ٹیس برابر محسوس کی جارہی ہے۔ مختلف سیاسی نظریات اور سیاسی عقیدوں سے وابستہ کشمیر نشین کچھ سیاسی قبیلے جمہوریت کے اس جنازہ کو کاندھا دینے میں شریک رہے لیکن بے شرمی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ کاندھا دینے والاکوئی ایک بھی اپنے اس جرم کو قبول نہیں کررہاہے، بلکہ الٹا بیہودہ دعویٰ کرکے الزام یا ذمہ داری کا بوجھ دوسرے کا ندھوں پر سوار کرنے کی سعی لاحاصل کی جارہی ہے۔
نیشنل کانفرنس، مفتی محمدسعید بحیثیت مرکزی کردار کے، کانگریس اور ان سے وابستہ لوگ جن میں سے بہت سارے جو تاحیات ہیں اور فی الوقت مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں کشمیر سے جمہوریت کے جنازے کو کاندھا دینے کے مجرمین میں صف اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقتدار کی خاطر یا دوسرے الفاظ میں حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کی خاطر رجمہوری سیٹ اپ کو تہہ وبالال کرکے رکھدیا جائے تو جمہوریت زخمی ہوکر نڈھال بن جاتی ہے، غیر جمہوری راستے مثلا ً مسلح تشدد ، گوریلا جنگ، درپردہ جنگ یا عسکریت سے وابستہ کوئی راستہ اختیار کرلیاجائے تو وہ بھی جمہوریت کی بیخ کنی ہی کہلاتی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے آنے والے الیکشن میںاداروں کی طرف سے کسی مداخلت کی صورت میں جو انتباہ دیا ہے سابق حریت لیڈر اپنے عسکری گروپ کی قیادت کے حوالہ سے سابق راہ نما اور اب پیپلز کانفرنس کے پھر سے منتخب صدر سجا د غنی لون نے جوابی وارکرتے ہوئے کہا ہے کہ جو خود (ووٹ ) چور رہا ہے وہ کس ڈھٹائی سے شفافیت کا دعویٰ کررہاہے۔ فاروق عبداللہ کا بیان اور سجا د غنی لون کا ردعمل دونوں کو جمہوریت کے تحفظ، جمہوریت کی نشوونما، جمہوریت کو پروان چڑھانے اور جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھ کر معاملات اور مسائل کا حل مذاکرات کے ٹیبل پر بیٹھ کر تلاش نہ کرنے کے راستوں کو ترازو کے دونوں پلوں میں رکھاجائے تو یہی اخذ ہوگا کہ دونوں نے کشمیر میں جمہوریت اور جمہوری راستوں کو اب تک حد سے زیادہ مسدود بناکر کشمیر کو صرف زخم ہی نہیں دیئے ہیں بلکہ ان زخموں کی جو ٹیس محسوس کی جارہی ہے ان پرمرہم رکھنے کی ذرہ بھر بھی اب تک کوشش نہیں کی گئی بلکہ دونوں بے شرمی اور ڈھٹائی کیساتھ ’’جمہورپرست‘‘ کا ملمع اپنے اپنے چہروں پر چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
آج نئے سرے سے میدان مارنے کیلئے تمام لنگر لنگوٹے کسے نظرآرہے ہیں لیکن ۸۸۔۸۹ء سے اب تک اوسط کشمیری نے جو کچھ سہا کیا کشمیرکے کسی سیاسی قبیلے کو اس کا احساس ہے۔ آج ہر سیاسی قبیلہ چلا چلا کر ریاستی درجہ کی بحالی اور الیکشن فوراً کرائو کا نعرہ دے رہاہے، انہی دو باتوں کو لے کر سیاست کی جارہی ہے اور انہی باتوں کو لے کر ایک دوسرے کی کردارکشی، طعنہ زنی اور چولیوں کے پیچھے کیاہے کی سیاست کی جارہی ہے۔ دوسرے معنوں میں کہاجائے تو یہ کہ کشمیر اور کشمیرکی سرزمین پر بسنے اور رینگتے نظرآنے والے اورمتحرک سایوں کے سارے مسائل ، معاملات، پریشانیاں اور مصائب کا مداوا ہو چکا ہے اور ان ساری پریشانیوں اور ذہنی اُلجھنوں سے عوام کو چھٹکارا دلانے کیلئے ان سارے سیاسی قبیلوں نے دن رات ایک کرکے جو انتھک محنت کی اُس محنت پر آخری ٹوپی ریاستی درجہ کی بحالی اور الیکشن کے بعد حصول اقتدار کی دوڑ کی تکمیل پر رکھنے کی دیر ہے۔
پہلے اُس جمہوریت کوتلاش کرو، ڈھونڈو، جس کو تابوت میں رکھ کر ستھر سال تک جنازہ برآمد کیاجاتارہا، اپنے اُس رول کو عوام کے سامنے لاکر پیش کرو جس رول کو اداکرکے ریاسات کی اندرونی خودمختاری کو بتدریج اندر ہی اندر سے کھوکھلاا کرنے کے مشن کا حصہ بنتے رہے ، اُس نعرہ کا جواب دو جس نعرہ کے الفاظ ’بولی سے نہیں بات بنے گی گولی سے‘یہ بھی بتائو کہ ۸۷ء کے الیکشن میں دھاندلیوں کا اصل ذمہ دار کون تھا اور کس کے حکم پر کشمیرکے ساتھ اس شرمناک فراڈ کو روارکھا گیا اور اُس فراڈ کی بدولت فائدہ کس کو کیا ملا؟ اس سوال کا بھی تو کچھ جواب ہونا چاہئے کہ پہلے قومی دھارے سے وابستگی کی بُنیاد پر وزارت کا منصب حاصل کرنے کے بعد علیحدگی پسندکیمپ کے ساتھ جڑ جانے اور اُس کیمپ سے کئی سالوں تک جڑے رہنے اور جڑے رہ کر عسکریت کی کماں سنبھالنے کے بعد اب پھر قومی دھارے سے وابستگی کس سیاسی تسلسل، سیاسی اساس، سیاسی نظریہ اور سیاسی عقیدہ سے وابستہ ورق ہے؟
مختصر یہ ہے کہ ہر کشمیر نشین سیاسی قبیلہ سے وابستہ ہر ایک کردار قوم سے معافی مانگ لے قوم کو جو زخم دیئے اور دلائے گئے ہیں ان کی ذمہ داری میں بحیثیت شراکت دار کے اعتراف کریں اور مختلف مگر باہم متضاد نہ سہی مگر قوم کے وسیع ترمفادات میں اس عزم کے ساتھ کردار اداکریں کہ نہ صرف جمہوریت کو پروان چڑھانے اور آئین کا ہر قدم اور ہر سطح پر تحفظ یقینی بناتے ہوئے لوگوں کی ترقی اور بہبود کیلئے متحد ہوکر میدان میں جٹ جائیں گے۔
سمجھو تو سب کچھ نہ سمجھوتو کچھ بھی نہیں ۔