سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کا کہنا ہے کہ ’میرا دل کہتا ہے کہ دفعہ ۳۷۰ بحال ہوگی‘، سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’آج نہیں تو آنیو الے کسی کل کو دفعہ ۳۷۰ واپس بحال ہوگی، سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ دو تہائی اکثریت ہی پارلیمنٹ کی وساطت سے دفعہ ۳۷۰ کو واپس آئین کا حصہ بناسکتی ہے ، اپنی پارٹی کا سربراہ الطاف بخاری کا کہنا ہے کہ یہ ساری پارٹیاں دفعہ ۳۷۰ کو لے کر عوام کو گمراہ کررہی ہیں جبکہ عدالت ہی اس بارے میں فیصلہ کرسکتی ہے۔ گجرات اور ہماچل میں اسمبلی الیکشن پراسیس کے دوران کئی مرکزی عہدیداروں نے عوام کو بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت نے عہد ساز اور جرأت مندانہ فیصلہ کرکے اس آئین کی دفعہ کو ختم کردیا۔
تین سال گذر گئے، ان آئینی دفعات بشمول ۳۵؍ اے کوختم کردیاگیا لیکن سیاسی پارٹیوں میں ان دفعات کو لے کر نہ صرف بحث جاری ہے بلکہ جذباتیت کا ایک اہم حصہ بنا کر بار بار ان کا تذکرہ کیاجارہاہے ، بحث وتکرار کا نہ ختم ہونے والا حصہ بنایا جارہاہے، انتخابی مہم کے دوران کوئی تقریر مکمل اور جامعہ نہیں جب تک نہ ان دفعات باالخصوص دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کے حوالہ سے یا خاتمہ کے حوالہ سے تذکرہ نہیں کیاجاتا۔ بلکہ سچ تو یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت نے اس دفعہ کے خاتمے کو اپنے انتخابی منشور اور اس حوالہ سے رائے عامہ کو اپنا ہم خیال بنانے کی سمت میں ایک لازمی جز قرار دے رکھا ہے جبکہ کشمیر کے اندر کم وبیش ہر پارٹی کسی نہ کسی حوالہ سے اس کی بحالی کا یقین بھی دلارہی ہے اور ملک کی سپریم کورٹ میں سالہاسال سے چلے آرہے زیر التوا اس معاملہ کو منطقی انجام تک دوسرے الفاظ میں اپنی خواہشات کے مطابق پہنچانے کا عوام کو یقین دلارہی ہیں۔
دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵ ؍ اے کے حوالہ سے اب تین سال سے جاری یہ مخصوص منظرنامہ کیا یہ عندیہ نہیں دے رہا ہے کہ یہ دفعات کتنی مظلوم اور بے بس ہیں کہ ہر کوئی ان پر اپنی ملکیت کا مختلف طریقوں، عقیدوں اور نظریات کے حوالہ سے دعویٰ کرتاجارہاہے۔ عوام کے جذبات کو جوش بھی دیاجارہا ہے اور بحالی کی سمت میں یقین دہانیوں کے نئے پہاڑ کھڑا کرکے اُمید وبیم کے ٹمٹماتے چراغ کی لو کو جلابخشنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جو بحالی کی حق میںعوام کو یقین دلارہے ہیں اس کے خاتمے کی حمایت کرنے والے انہیں یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ ایسا کرکے عوام کو گمراہ کرکے ان سے ایک اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ جبکہ اس دفعہ کی واپسی کا یقین ظاہر کرنے والے اس کے خاتمے کی حمایت کرنے والوں کو عوام کے جذبات کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کرنے اور اعتماد شکنی کا طعنہ دے رہے ہیں۔ لیکن ان دونوں کی اس نظریاتی جنگ کا کیا کوئی فائدہ عوام کو پہنچ رہا ہے یا آنے والے دنوں میں پہنچ پانے کی توقع کی جاسکتی ہے، یہ سوال ملٹی ملین ڈالر کا ہے ۔
ایک اور پہلو سے جائز ہ لینے کی کوشش کریں۔معاملہ اب تین سال سے سپریم کورٹ میں ہے ۔ تقریباً تین درجن عراضداشتیں حق اور مخالفت میں دائر ہوچکی ہیں۔ اس مدت کے دوران مشکل سے چند ایک ہی سماعتیں ممکن ہوسکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ سرد مہری سے کام لے رہی ہے۔ یہ سردمہری کہا نہیں جاسکتا کہ حکومتی دبائو کا نتیجہ ہے، عدالت کی اپنی کوئی مجبوری یا ان کہی مصلحت ہے ، درخواست گذار نہیں چاہتے کہ سماعت تیزرفتاری کے ساتھ یا معمول کے مطابق ہوتاکہ وہ اپنی اپنی مصلحتوں اور مفادات کے حوالہ سے وقتاً فوقتاً اس راگنی کا الاپ جاری رکھ سکیں، یا ان کی مصلحت یہ ہے کہ دکھاوے کیلئے ملک کی عدالت عظمیٰ سے رجوع تو کیاہے اب سماعت عدالت اپنی مرضی سے کرے، دبائو ڈالنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی عجلت یا وقت کی قید،
جہاں تک خود عدالت اعلیٰ کا تعلق ہے تو اس نے بھی اس ضمن میں عوام کو مایوس کردیا ہے اورا پنے اس التوائی طریقہ کار یا مسلسل سرد مہری کا راستہ اختیار کرکے عوامی ذہنوں میں اپنے بارے میں کئی ایک سوالات ،شبہات ،خدشات اور تحفظات کو جنم دیا ہے۔ ابھی چندہفتے قبل عدالت عظمیٰ نے اعلان کیا تھا کہ ویکیشن(چھٹیوں) کے فوراً بعد اس حوالہ سے زیرالتواء درخواستوں پر سماعت کی جائیگی، وہ چیف جسٹس ریٹائر بھی ہوگیا، نئے چیف جسٹس نے عہدہ بھی سنبھال لیا لیکن سماعت کا کہیں دور دور تک شائبہ نہیں ، یہ امر قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر کے حوالہ سے دائر کسی مخصوص مسئلے پر سپریم کورٹ کا اس طرح کا طرزعمل منفرد نہیں اور نہ ہی پہلا ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایک اہم مگر حساس نوعیت کے معاملے پر سپریم کورٹ میں دائر عرضداشت کو سالہاسال تک التواء میںرکھنے کی تاریخ موجود ہے۔
جوڈیشری کے تعلق سے خود جوڈیشری سے وابستہ جتنے بھی ستون ہیں ان کا یہ متفقہ ماننا ہے کہ انصاف کی ترسیل میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہے یا انحراف انصاف کے زمرے میں شمار کیاجاتا ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ اس مخصوص معاملے پر آئین کیا کہتاہے ، قانون کی رائے کیا ہے یا خود ان عدالتی فیصلوں کی روشنی میں اب ایسا کیا ہوا یا ہونے کا ڈر ہے کہ سپریم کورٹ اپنے ہاتھ روک رہی ہے۔ البتہ لوگوں کی بھاری اکثریت اس یقین کی حامل ہے کہ انہیں عدالت پر اعتماد اور بھروسہ ہے اور انصاف پر مبنی فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں۔ لوگوں کے اس یقین کو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ یقین اور بھروسہ اُٹھ گیا تو زندگی کا ہر ایک شعبہ انحطاط کے راستے پر گامزن ہوتا جائے گا۔ لہٰذا عدالت عظمیٰ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے اس اعتماد اور بھروسہ کو قائم رکھیں، اس حوالہ سے ان کے اگر کوئی بھرم بھی ہے تو اس بھرم کی بھی لاج رکھنے کی کوشش کریں، مایوس کرکے انہیں یا سیت کی دلدل میںدھکیلنے کاحصہ دار نہ بنیں۔
کشمیر نشین سیاسی جماعتیں ہوں یا جموں نشین ، سبھی سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ زمینی حقائق کی روشنی میں ہی ان دفعات کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔ وہ پہلے عوام پر یہ واضح کریں کہ اگر وہ خود سپریم کورٹ سے رجوع کرچکے ہیں تو اب تین سال سے وہ خاموش کیوں ہیں اور اب کون سی مصلحتیں ان کی راہ میں حائل ہورہی ہیں۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب ان پارٹیوں میں سے اکثریت گذرے ۷۵؍ برس کے دوران برسراقتدار تھی یا ان سے وابستہ لیڈروں کی اکثریت مختلف وزارتی عہدوں پر متمکن تھی تو ان ادوار میں کیا دفعہ ۳۷۰؍ کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنا کرختم کرنے کے راستے خودان کی معاونت سے اختیار نہیں کئے جارہے تھے تو ان حضرات نے روکنے کی کون سی کوشش کی تھی یا کس نوعیت کی مزاحمت کا راستہ اختیار کیاتھا۔ جو لوگ اور پارٹیاں مرکز میں برسراقتدار تھی اور دفعہ ۳۷۰؍ کو اعلانیہ طور سے کھوکھلا بنارہی تھی ا ن کا دم چھلہ بن کر کیا اقتدار کے یہ بھوکے ان کے ہم قدم نہیں تھے۔
اپنے ماضی کے کردار اور معذرت خواہانہ روش کا خود محاسبہ کرنے کے بجائے اب کوئی کہہ رہا ہے کہ میرا دل واپسی کی گواہی دے رہا ہے ، تو کوئی کہہ رہا ہے کہ آج نہیں تو کل دفعہ بحال ہوگی، یہ سیاسی چونچلے ہیں جن کا سہارا لے کر عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔