سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوسکتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن، سیاستدانوں کے درمیان آپسی اتحاد ایک جزو قتی کنٹریکٹ کے سوا اور کچھ نہیں، جی بھرآئے، مفادات کی تکمیل اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے یا پارٹی سے وابستگی کے ہوتے اس کے سرسے سورج کو ڈوبتا محسوس کرکے کنارہ کشی اختیار کرکے چڑھتے نئے سورج کی پوجا شروع کر دے یہی سیاست ہے اور سیاستدانوں کا وطیرہ!
نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اقتدار میں تھی تو ان دونوں پارٹیوں سے وابستہ کئی ایک وابستہ رہے بلکہ اقتدار کے مزے اور عیاشیاں بھی لوٹتے رہے، اقتدار ہاتھ سے گیا تو دل بدلیوں کے راستے اختیار کئے ۔ مثالیں درجنوں میں نہیں سینکڑوں میں ہیں۔ اپنی پرانی پارٹی وابستگی کی بُنیاد پر مختلف حساس نوعیت کے سیاسی یا غیر سیاسی معاملات پر ان کے بیانات آج بھی عکس بند ہیں یا تاریخ کا حصہ ہیں لیکن جب دل بدل کر دوسرا سیاسی چوغہ زیب تن کیا تو انہی اشو پر آج ان کے الٹ پیش کیاجارہا ہے ۔ ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں میں وابستگی کے ہوتے جن لیڈروں کی قربت اورسرپرستی حاصل کرکے سیاسی زینے طے کئے جاتے رہے آج انہی میں سے بہت سارے اپنے ان سابق سیاسی آقائوں اور سرپرستوں کو آنکھیں دکھا کر ان کے خلاف زہر افشانی ہی نہیں بلکہ بیہودگی سے عبارت باتیں کررہے ہیں۔
تازہ ترین مثال جموںوکشمیر کا نگریس یونٹ کے بعض نئے ذمہ داروں کے حوالہ سے دی جاسکتی ہے، نیا صدر اپنے سابق سیاسی سرپرست غلام نبی آزاد کو ایک چھوٹے قد کا سیاستدان قرار دے کر یہ بھی مسلسل دعویٰ کررہاہے کہ پچاس سال کے دوران کانگریس نے آزاد کو بہت کچھ عطاکیا، پارلیمنٹ ممبر بنایا، وزارتی عہدہ پر فائز کیا، پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کا تاج سر پررکھا حالانکہ بقول مذکورہ صدر کے آزاد اس رتبے اور قد کا مستحق نہیں تھا لیکن اس کے باوجود آزاد نے دغا دے کر پارٹی چھوڑی دی کیونکہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم نریندرمودی نے الوداعی تقریر میںآزاد کیلئے کچھ آنسو بہادیئے جبکہ بعد میں آزاد کو ایک چھوٹا ملکی اعزاز سے نوازا گیا۔
جواب میں آزاد نے اپنے اس سابق چیلے کے بارے میں ردعمل میں صرف اتنا کہا کہ ’چھوٹے کی چھوٹی ہی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پردیش کانگریس سے وابستہ بعض عہدیدار آزاد کی کھل کر اور جم کر کردارکشی کرتے نظرآرہے ہیں اور ان کے بارے میں بار بار چھوٹے قد کا سیاسی لیڈر کا طعنہ اختراع کرکے رائے عامہ کو دانستہ طور سے گمراہ کرنے کی سعی لاحاصل میں اپنی توانائی ضائع کررہے ہیں۔ وجہ تو ہونا چاہئے، وہ وجہ کیا ہے؟
کیا وجہ یہ ہے کہ آزاد نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے پارٹی کے کئی بڑے اور قد آور لیڈروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میںکامیابی حاصل کرلی، کیا وجہ یہ ہے کہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے سے لے کر اب تک آزاد نے توقعات سے بڑھ کر بڑے عوامی اجتماعات منعقد کئے اور ریلیوں کا اہتمام کیا، کیا آزاد کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرنے والے لوگ آزاد کی محبت میں مبتلا ہو کر شرکت کرکے اپنی قوت کا مظاہرہ کررہے ہیں یا آزاد کی ان ترقیاتی کاموں کا براہ راست ردعمل ہے جو کام وہ اپنے اڑھائی؍تین سالہ مختصر دور اقتدار میں انجام دے کر چلے گئے تھے اور جن کاموںکا عکس اور نقش لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوپارہاہے یا وجہ یہ ہے کہ کانگریس اب خود کو جموں وکشمیر میں بے دست وپا، تنہا، کسمپرس محسوس کررہی ہے اور اس کے پاس اب کوئی قدآور لیڈر نہیں جو پارٹی کو سنبھالا دے سکے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ بھی کچھ اور وجوہات ہوں لیکن بادی النظر میں زمینی حقیقت یہی ہے کہ جموں وکشمیر کانگریس ہر اعتبار سے خود کو یتیم محسوس کررہی ہے۔
بہرحال کانگریس صدر نے آزاد کو تفویض کئے گئے قومی اعزاز کو چھوٹا بھی قرار دیا اور وزیر اعظم نریندرمودی سے صلہ قربت کا ایوارڈ بھی قرار دیا، یہ کہکر مذکورہ عہدیدار نے آزاد کی کوئی تضحیک نہیں کی بلکہ اُس قومی ایوارڈ کی تضحیک کی جس کو حاصل کرنے کیلئے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ سرکردہ شخصیات آرزو کرتی ہیں۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب کانگریس کے کسی لیڈر یا چھوٹے عہدیدار نے قومی ایوارڈ کی تضحیک کی ہو، اس سے قبل کانگریس کی ہی مرکزی قیادت نے کشمیر میں عسکری دورسے وابستہ انسان اور انسانیت کے ایک بدترین اور بدنام زمانہ قاتل ممہ کنہ کو ایسے ہی ایک قومی ایوارڈ سے نواز کر ایوارڈ کی تضحیک کی تھی جس کے ردعمل میں جموں وکشمیر میں زندگی سے وابستہ کم وبیش ہر شخص، ادارے اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں نے اس وقت کی مرکزی سرکار کے اُس فیصلے کو کشمیری عوام کے زخموں پر نمک پاشی اور لوگوں کے جذبات اور احساسات کی توہین قراردیا۔
ان دو کے درمیان فرق واضح ہے ، آزاد کو ان کے سیاسی کردار، ایک باصلاحیت پارلیمنٹرین اور بڑے قد کے اپوزیشن لیڈر کے اعتراف میں قومی ایوارڑ سے نوازا گیا توکانگریس کوحکومت کی یہ ادا اور خدمات کے اعتراف میں یہ فیصلہ ہضم نہیں ہوسکا جبکہ دوسرے شخص جس کی ایک قاتل کے طور شناخت رہی ہے کو کانگریس حکومت نے ماضی میں ملکی ایوارڈ سے نوازکر لاکھوں لوگوں کے جذبات اور احساسات کو مجروح اور چھلنی کرنے کی سمت میں کشمیر کے حوالہ سے اپنے ماتھے پر ایک اور بدنما دھبہ کا اضافہ کیا تھا۔
ریاستی کانگریس صدر نے اپنے اس بیان پر معذرت تو ظاہر کی ہے لیکن یہ معذرت تب کی جب سماج کے کم وبیش ہر طبقہ نے اپنے ردعمل میں اسے جیوتیوں کی مالائیں پیش کیں۔ ریاستی کانگریس صدر ابھی بھی پارٹی کے ذمہ دار عہدے پر فائز ہوئے ہیں جبکہ پارٹی کے اندرانکے بہت سارے سینئر بھی موجود ہیں جن میں سے کئی ایک کے بارے میں یہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا جاسکتا ہے کہ عسکری دور کے عروج پر جب کسی ایونٹ، سرکاری یا غیر سرکاری ، کے حوالہ سے وہ موقعہ پر موجود ہو ا کرتے تھے تو کیمرہ سے اپنی آنکھیں اور چہرہ چھپا چھپانے کا ہر راستہ اختیار کیا کرتے تھے، ان چہرہ چھپانے والوںمیں سے کچھ ایک نئے صدر کے دائیں بائیں آج کی تاریخ میں جلوہ گر رہ کر کیمرہ کی آنکھ میں عکس بند ہونے کی بھر پور کوشش کرتے نظرآرہے ہیں۔ یہ ہے کانگریس کی موجودہ لیڈر شپ کا قد!!