ترقی صنعتی شعبے کے حوالہ سے ہو، سیاحت ، زراعت، باغبانی ،ہینڈ ی کرافٹس یا زندگی کے دوسرے شعبوں کے حوالوں سے ہو کیلئے لازمی ہے کہ بُنیادی اور زمینی سطح پر مضبوط مستحکم اور پائیدار ڈھانچہ موجود ہو، لیکن اس ڈھانچہ کی مضبوط بُنیاد کے لئے لازم ہے کہ رسل ورسائل ، مواصلات اور بجلی ۷x۲۵ہی نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق دستیاب رہے۔
جموں وکشمیر اس شعبے میں بچھڑرہاہے اور یہ بچھڑا پن آج کا نہیں بلکہ ۷۵؍ برسو ں سے جموں وکشمیر کی مجموعی آبادی کیلئے ایک ایسا درد سربناہواہے جواب لاعلاج مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سالہاسال سے یہ دعویٰ سامنے لایا جارہاہے کہ جموں وکشمیر میں ۲۰؍ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس پیداوار کو اگر حاصل کرلیاجائے تو نہ صرف اپنی ضروریات پوری ہوگی بلکہ ہمسایہ ریاستوں کو بھی فروخت کرکے جموں وکشمیر کو مالی اور اقتصادی اعتبار سے خود کفالت کی راہ پر گامزن کرے گی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایک ایک سال گذرتا جارہاہے پیداوار کا حصول اُسی قدر دورہوتا جارہاہے۔
جموںوکشمیر کو اپنے مسائل کی کمی نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان وسائل کی دستیابی اور حصول کی سمت میں نہ کہیں منصوبہ بندی نظرآرہی ہے اور نہ ہی صلاحیت کا کہیں کوئی اتہ پتہ، بس باتیں دعویٰ اور مونگیری لال کے سپنوں کی مانند خیالی پلائو، کچھ عرصہ سے بھاری پیمانے پر سرمایہ کاری کے حوالہ سے بھی دعویٰ سامنے آرہے ہیں، یہ بھی کہا جارہاہے کہ بعض غیر ملکی سرمایہ کاروںنے جموںوکشمیر میں مختلف شعبوں کے تعلق سے سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور حکومت کو ان کی طرف سے تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ مجموعی طور سے ۶۰؍ ہزار کروڑ مالیت کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیاجارہاہے۔ لیکن ابھی تک اس سرمایہ کاری کے تعلق سے نہ کشمیر اور نہ ہی جموں میں کوئی خاص سرمایہ کاری زمین پر کسی ’آکار‘ کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔
یہ فرض کرلیاجائے کہ سرمایہ کاری کے حوالہ سے موصول اور دستیاب تجاویز کو کلیئر کرنے اور بُنیادی لوازمات کی تکمیل کے تعلق سے کچھ وقت درکار ہے لیکن زمین پر بھی تو کچھ نظرآنا چاہئے تاکہ عوام کا اعتماد اور اشتراک غیر متزلزل رہے۔ مانا سرمایہ کاری کے تعلق سے صنعتی یونٹ لگانے کیلئے زمین دستیاب ہے، سڑکیں خستہ حالت ہی میں سہی وہ بھی دستیاب ہیں لیکن صنعتی پہیہ کو گھمانے اور چالو رکھنے کیلئے بجلی کہاں ہے؟ بجلی کا حال یہ ہے کہ کشمیرمیں فی الوقت کم سے کم ۱۸؍ گھنٹے آنکھ مچولی اور کٹوتی کی نذر ہو جاتے ہیں۔
بجلی، جموں وکشمیر کا ایک ایسا شعبہ ہے جو ہرگذرتے دن کے ساتھ اپنی پُر اسرار یت کے ساتھ جموں وکشمیر کی ایک کروڑ تیس لاکھ آبادی کے لئے ایک ایسا معمہ ہے جس کا حل اگرکوئی ہے بھی تو وہ فہم وفراصت سے بہت دور ہے ۔ ۲۰؍ ہزار میگاواٹ کا حصول فی الحال دیوانے کی بڑ نہ قرار دے کرحاشیہ پر رکھا جاسکتا ہے لیکن پیداواراور ضرورت کے درمیان جس فرق کو ہر گذرتے مہینے اور سال کے سامنے لایاجارہاہے و ہ واقعی حیران کن بھی ہے اور ایک معمہ بھی ہے۔
اس تعلق سے بات کی جاتی ہے، گلہ شکوہ زبان پر آجاتا ہے تو جو جواب ردعمل کی شکل وصورت میں دیاجاتا ہے وہ بحیثیت مجموعی جموںوکشمیر کی آبادی کے لئے توہین آمیز بھی ہے اور کردارکشی کے مترادف بھی ! اب کہاجارہا ہے کہ پیداوار گھٹتے گھٹتے اڑھائی سو میگاواٹ تک پہنچائی گئی ہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ اگریمنٹ پندرہ سو میگاواٹ کے قریب ہے لیکن درکار اڑھائی ہزار میگاواٹ کے قریب ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بھی کہاجارہاہے کہ بجلی جموںوکشمیر سے باہر کسی کو فراہم نہیں کی جارہی ہے۔
یہ بھی کسی صدمہ سے کم نہیں کہ نہ جموں کا چیف انجینئر اور نہ ہی کشمیرکا چیف انجینئر اور دوسرے متعلقہ ذمہ داراں عوام کے سامنے حقیقی اعداد وشمارات پیش کررہے ہیں، بات کرتے وقت اگر مگر ڈھیر سارے ابہامات کے جال بھناتے اور بچھاتے ہی نظرآرہے ہیں۔پیداوار کتنی ہے، عوام کی اصل ضرورت کتنی ہے، کتنے بااثر سیاسی وغیر سیاسی لوگ، ادارے، تنصیبات ، مفت کی بجلی کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور کتنے بجلی کا استعمال کرنے کے باوجود فیس ادانہیں کررہے ہیں، کیا ان ذمہ داروں کو اس حوالہ سے معلومات نہیں لیکن صورتحال میں بہتری لانے کی سمت میں یہ فرض شناس کیوں نہیں ؟
لوگ عذاب میں ہیں، اس قت کشمیر ٹھٹھررہاہے، گرمی کی ضرورت بھی ہے اور روشنی بھی درکار ہے، لیکن یہ دونوں منظر سے غائب ہیں، لوگ ترس رہے ہیں اور چیخ رہے ہیں، سڑکوں پر آکرحکام کی توجہ اس صورتحال کی طرف مبذول کرانے کی بھر پور کوشش بھی کررہے ہیں لیکن کوئی ان کی اس کسمپرسی کی طرف توجہ نہیں دے رہا ہے ، اگر ہے تو بجلی فیس میں ۸؍فیصد حالیہ اضافی احکامات کی روشنی میں عمل آوری اور حصولیابی کو یقینی بنانے پر مرتکز ہے ۔ دہلی کے لوگوں کی اکثریت کو مفت اور سبسڈی پر بجلی سپلائی کی جارہی ہے ،اس لائن میں اب پنجاب کو بھی شامل کرلیاگیاہے، لیکن کشمیر اور جموں کی آبادی کا ۹۰؍ فیصد تاریکی میں جھوج رہی ہے۔ چاہے موسم سرد ہو یا گرم ہرصورت میں بجلی کی قلت اور کٹوتی کا سامنا ہے۔
اس مخصوص منظرنامہ کے ہوتے یہ کیسے توقع رکھی جائے کہ ملک کے صنعتی ادارے یا غیر ملکی سرمایہ کار کشمیر اور جموں آکر سرمایہ کاری کریں، صنعتوں کا پہیہ گردش میں رکھنے کیلئے ۲۴ ؍گھنٹے بجلی درکار ہے جو بدقسمتی سے دستیاب نہیں۔ لہٰذا جب تک نہ اس مخصوص شعبے کی نمایاں ترقی کی طرف دھیان دیاجاتا ہے اس وقت تک جموںوکشمیر ترقی کی دوڑ میں پسماندگی کی دلدل میں ہی دھنستا رہے گا۔ صنعتی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔