سیاسی مقاصد کی تکمیل کی سمت میں عموماًمکروہ عزائم، حقیر مفادات، جذبات اور احساسات کا ناجائز استحصال ایسی اصطلاحات کا استعمال معمول بن چکا ہے۔ اب یہ حیرانی کا موجب نہیں بلکہ اصطلاحات کے مسلسل استعمال نے اس عمل کو ایک طرح کی جائزیت عطاکی ہے۔
سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے مذہب اور عقیدوں کا سہارا کورونا کی بڑھتی اور پھیلتی تیز ترین لہر سے بھی کہیں زیادہ شدت اور رفتار کے ساتھ لینے کی روش سیاسی جماعتوں اوراُن سے وابستہ لیڈروں کے طرزعمل، تقریروں، اشاروں، کنایوں اور جملہ بازی کے انداز میں واضح طور سے نظربھی آرہی ہے اور محسوس بھی کی جارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی لیڈر، ذمہ دار یا کوئی اعلیٰ شخصیت سیاسی منظرنامے سے منسوب پنپ رہی اس روش پر ناپسندیدگی کو زبان دیتا رہتا ہے اور تلقین بھی کی جارہی ہے کہ مذہبی عقیدوں ، مذہبی نظریات اور منافرت سے عبارت تقریر بازی سے اجتناب کیاجانا چاہئے تاکہ معاشرے میں آبادی کے مختلف طبقوں میں آپسی برادرانہ تعلقات، رواداری اور بھائی چارہ کے جذبات دامن سے چھوٹ نہ پائیں۔لیکن ان فہمائشوں کی کوئی سنتا نہیں، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سیاست کار سیاست کومافیا خطوط پر استوار کرکے اپنے ذاتی اور مکروہ عزائم کی تکمیل ہر قیمت پر چاہتے ہیں چاہئے اس کیلئے سماج اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ ہوجائے۔
حالیہ کچھ برسوں کے دوران یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ جوسیاستدان خود مذہب اور مذہبی تعلیمات سے لا علم ہے،کچھ بھی نہیں جانتا ہے ، وہ بھی مجمع کے سامنے مذہب کا سہارا لینے کا خوگر بن چکا ہے یہ دوسری بات ہے کہ جن مذہبی شقوں کا وہ حوالہ دیتا رہتا ہے وہ عموماً غلط ہوتا ہے جو مذہب سے اُس کی ناآشنائی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ یہ بھی دیکھاجارہاہے کہ الیکٹورل پراسیس کو بھی مذہبی خطوط پر استوار کرنے کی روش کو مضبوط کیاجارہاہے۔ سیاسی پارٹیاں جو کبھی فرقہ وارانہ رواداری کے جذبات سے سرشار ہواکرتی تھی اور الیکٹورل پراسیس کے تعلق سے آبادی کے ہر طبقے سے نمائندگی کا انتخاب کرنے کے طریقہ کار کو اپنے لئے سب سے بڑا فخر اور رواداری کے تعلق سے بے مثل عہد بندی پر فخر کیا کرتی تھی اب اس راستے سے ہٹ رہی ہیں اور مذہبی اور عقیدتی اورنظریاتی جنون میں مبتلا ہوکر ساری الیکٹورل پراسیس کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے اور انہی خطوط پر استوار کرنے کے راستوں پر نہ صرف گامزن ہیں بلکہ اس نظریہ کو پروان بھی چڑھارہی ہیں۔
الیکٹورل پراسیس ہی کے حوالہ سے کانگریس کے سابق لیڈر اور جموں وکشمیر جمہوری آزاد پارٹی کے سربراہ غلام نبی آزاد نے ابھی چند ہی ماہ قبل رندھی آواز میں یہ شکوہ کیا تھا کہ خود انکی پارٹی کے لیڈر اپنے انتخابی جلسوں میں اب مجھے دعوت نہیںدے رہے ہیں کیونکہ میں ٹوپی پہنتا ہوں (یا شاید اس سے ہی ملتے جلتے الفاظ استعمال کئے تھے)اور اب یہی آزاد صاحب فرقہ وارانہ رواداری پر اپنی غیر متزلزل یقین کا اظہار کرتے ہوئے واضح الفاظ میں یہ چتائونی دے رہے ہیں کہ ’’ مذہب کی بُنیاد پر سیاست نے ملک کو زبردست نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ انہوںنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے مذہبی تقسیم کو بڑھائوا دینے کے رجحانات کو بدقسمتی قراردیا۔ مذہب کی بُنیاد پر اس تقسیم کا قلع قمع کرنے کا واحد راستہ ان کے بقول یہ ہے کہ لوگ خود مذہب کے نام پر تقسیم نہ ہوں بلکہ اُلٹے ہاتھوں تقسیم کرنے والوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کا عزم رکھیں۔
ابھی غلام نبی آزاد کی اس حوالہ سے آراء کی صدائے باز گشت سنائی ہی دے رہی تھی کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے ایک کانفرس سے خطاب کے دوران واضح کیا کہ ’’ جمہوری طرز سیٹ اپ میں جہاں دہشت گردی کیلئے کوئی جگہ نہیں وہیں نفرت انگیز بیانات اور تقریروں کے ذریعے مذہبی منافرت پھیلانیکی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ایسے لوگوں کی شناخت کرکے انہیں (سماج اور سیاست سے ) تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم علماء اور دیگر مذہبی راہنما دہشت گردی اور منافرت کو ختم کرنے کی سمت میں نمایاں رول اداکرسکتے ہیں‘‘۔
ملکی سیاست اور انتظامی امورات اور قومی سلامتی کے حوالہ سے خدمات انجام دے رہے ان دونوں شخصیات کا دہشت گردی اور مذہب اور منافرت کی بُنیاد پر سیاست کے استعمال کے خلاف بیک وقت اظہار خیال کو محض حسن اتفاق ہی تصور کیاجائے تو بھی ان خیالات ، جذبات اور نظریات کی اہمیت اور مقصدیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ انہیں بروقت ہی خیال کیاجاسکتاہے۔
اس وقت بھی جبکہ کچھ ریاستوں کے الیکشن ہورہے ہیں یا آنیوالے کچھ مہینوں میں ہونے جارہے ہیں منافرت ، بھید بھائو، رنگ، فرقہ واریت اور مخصوص نظریات کو نہ صرف ہوا دی جارہی ہے بلکہ مختلف سیاست جماعتیں اس دوڑمیں شامل ہوکر سبقت لے جانے کی بھر پورکوشش کررہی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بعض ذمہ دار جو آئینی عہدوں پر متمکن ہیں اور ان سے ذمہ دارانہ طرزعمل اور فرض شناس اپروچ کی توقع کی جارہی ہے وہ بھی مذہب اور منافرت سے عبارت سیاسی دکانیں سجاکر بالادستی کی احمقانہ اور پاگلانہ دوڑمیں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔
عوامی فلاح وبہبود، ترقی اور ملک کی سلامتی اور یکجہتی کی سمت میں درکار نظریہ اور ضرورت پر بات نہیں کی جارہی ہے بلکہ تاریخ اور تاریخ سے جڑے صحیح وغلط حوالہ جات اور اُن ادوار میں پیش آمدہ معاملات اور واقعات کو لے کر بدبختانہ بحث طول بھی پکڑتا جارہاہے اور اسکی ہر طرح سے حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب اس مخصوص نظریہ کو تعلیمی اداروں اور کلاس روموں کی چاردیواریوں کے اندر تک لے جایاگیا جہاں کوئی ٹیچر اپنی فسطائی ذہنیت کا ننگا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی دلیل، شہادت اور وجہ کے کلاس روم میں زیرتعلیم مخصوص فرقے کے بچے کو دہشت گرد قرار دے کر آگ کے شعلوں کو بھڑکانے کی دانستہ کوشش بھی کررہا ہے اور اپنے جنون کو بھی زبان دے رہا ہے ۔ یہی ذہنیت ہندوستان کی کثرت میں وحدت کے ہمالیہ کو ریزہ ریزہ کرتی جارہی ہے۔