مفکرین ، دانشور، مبصرین اور آزاد خیال طبعیت کے حاملین سیاست کو ’’چاہت‘‘ یا چاہت کو ’’سیاست‘‘ کا دوسرا نام دے رہے ہیں۔ سیاست کے حوالہ سے یہ بھی کہاجارہاہے کہ یہ خباثت سے عبارت ہر زمانے میں رہی ہے بلکہ جب سے دُنیا میں سیاست کا ظہور ہوا خباثت بھی ساتھ ہی جنم پاگئی۔ سیاست کے نام پر جمہوریت، سیاست کے نام پر آمریت، سیاست کے نام پر ہائی برڈ سیاست اور حاکمیت ، سیاست کے نام پر چنگیزیت ، قتل وغارت، خون خرابہ ، مار دھاڑ، استحصال ، پکڑ دھکڑ، انسانی ، تہذیبی ، لسانی ، اقتصادی حقوق کی سلبی ، بالادستی اور توسیع پسندی ایسے معاملات عالمی تاریخ کے حوالہ سے چشم بینا دیکھ چکی ہے، دیکھ بھی رہی ہے اور آئندہ بھی مستقبل میںیہ منظرنامہ تبدیل نہیں ہوگا۔
گالی گلوچ، بداخلاقی ،جارحیت یا جارحانہ انداز اپروچ، کردار کشی اس حوالہ سے سیاست اور سیاستدانوں کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے بلکہ زور بھی اسی طرز اور آنداز کی بدکلامی پر دیاجارہاہے ۔اصولی اور اشو کی بُنیاد پر سیاست کا زمانہ لُد گیا ہے اس کی جگہ چاہت ، حصول اور مفادات اور نظریہ ضرورت سے عبارت سیاست بڑی تیزی کے ساتھ حاوی ہوتی جارہی ہے۔ا پنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا وسیع تر استعمال اور وہاٹس اپ فیکٹریوں کا بڑھتا جال اور سیاستدانوں کی جانب سے ان فیکٹریوںکی سرپرستی اور مالی معاونت کے بڑھتے رجحانات نے سیاست کے سارے نظریہ اور مقصد کو تبدیل کرکے ایک ایسی لعنت کے سانچے میں ڈال دیا ہے کہ اب اس کی واپسی قریب قریب ناممکن نظرآرہی ہے۔
بہرحال سیاست اور سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے تبدیلیوں، بدلتے حالات کے ساتھ سیاست اور سیاسی انداز فکر وعمل کو ہم آہنگ کرنے، لوگوں تک رسائی کو ان تمام راستوں اور طریقوں کی بدولت، جو دستیاب ہیں، ممکن بنانے کے تعلق سے سیاسی حلقوں اور عوامی حلقوں کی آرائیں مختلف بھی ہوسکتی ہیں اور کسی کسی اعتبار سے یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں ہم آہنگی بھی پائی جائے لیکن اس بات پر تقریباً اتفاق رائے پایا جارہاہے کہ سیاست کی دُنیا شریفوں ، پاکیزہ ذہنیت کے حامل لوگوں، اور عوام کی بھلائی، ترقی ، خوشحالی اور خدمت کے جذبے سے سرشار افراد کیلئے اب نہیں رہی ۔
اقوام عالم کے نقشے پر محض سرسری نگاہ دوڑائی جائے تویہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ تقریباً دو سو ممالک کی صف میں محض کچھ ہی حقیقی جمہوریت کے حامل ملکوںمیں شمار ہوتے ہیں باقی یا تو ہائی برڈ، ناکام، غیر فعال یا آمرانہ طرز حکومت کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔
اس طرز سیاست کی چھاپ ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان ، چین ، بنگلہ دیش ، برما(میانمار) سری لنکا، مالدیپ، روس ایسے ملکوں میں اب واضح طور سے دکھائی دے رہی ہے۔ چونکہ کشمیربھی اسی خطے کا حصہ ہے لہٰذا کشمیرکاسیاسی لینڈسکیپ بھی اب بتدریج تبدیل ہوتاجارہاہے۔ کشمیر کی سیاسی اُفق سے وابستہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں تھی یا ماضی کے حوالہ سے ان کا طرہ ٔ امتیاز تھا۔ پہلے جماعتیں اور لیڈر شپ معاملات اور اشوز کو عوامی مفادات ، ان کے حقوق اور وسیع تردیرینہ خواہشات، آرزئوں اور تمنائوں کے مخصوص پس منظرمیں اپنی سیاست کی بُنیاد رکھ کر آگے بڑھتی لیکن اب کشمیرکی سرحدوں سے دور باہر نکل کر اپنے مفادات کو ملحوظ نظر رکھ کر سیاست کی جارہی ہے اور نریٹوز بھی اسی نظریہ ضرورت کے مطابق وضع کرکے اختیار کئے جارہے ہیں۔
کشمیرکی سیاست اُفق پر بھی وہی نظریات اور واہیات حاوی ہوتے جارہے ہیں جو برصغیر کے اس خطے کے کچھ ممالک میں مخصوص فکر اور مخصوص قبیلوں سے وابستہ سیاستدان اختیار کرچکے ہیں۔ اُ ن ممالک کے سیاستدانوں کی اکثریت نے اپنی سیاست کی اساس جھوٹ، فریب، گمراہی، کردارکشی ، چادر اور چاردیواروں کے تقدس کی پامالی، حقیر ذاتی مفادات کی کسی بھی قیمت اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ پر تکمیل ، لوگوں باالخصوص اپنے حامیوں کو غلط تربیت دے کر انہیں انفرادی اور ہجومی تشدد کا راستہ اختیار کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رکھنے اور لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے تئیں نفرت، بغض اور حسد سے بڑھ کر منافقت کا زہر پیدا کرنے کی روش اب ہمارے کشمیر میں بھی واضح طور سے دکھائی دے رہی ہے۔
کیا کوئی کشمیرنشین سیاستدان یا سیاسی پارٹی اپنے بارے میں عوامی خدمات سے سرشار جذبات، عوام کو درپیش سنگین مگرحساس نوعیت کے مسائل اور معاملات اور روزمرہ پریشانیوں سے جھوج رہے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے تعلق سے اپنے کسی فعال اور متحرک کردار کاحوالہ دے سکتے ہیں، البتہ کاغذی بیانات کے میزائل داغنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن خود یہ کاغذی میزائل داغے جانے والوں کواس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ ان کے یہ میزائل بے ضرر بھی ہیں اور ان کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیاجارہاہے۔بس انہیں داغنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کو یہ باور کرایاجاتارہے کہ ہم کام کررہے ہیں ، بات کررہے ہیں، ان کے اشوز کو ایڈریس کرنے کیلئے آواز بلند کررہے ہیں، یعنی دوسرے الفاظ میں اُس کشمیری ضرب المثل کی یاد ذہن میں اُبھرتی ہے کہ ایک شخص در در دبی زبان میں بالکل آہستہ سے کان میں یہ بات ڈال کر آگے بڑھتا ہے کہ ’کَانسہٖ مَہ رَو مَژھ گَائو۔ یہی طرزعمل اور انداز فکر کشمیر کے کم وبیش ہر ایک سیاستدان کے تعلق سے دیکھا جارہاہے اور محسوس بھی کیاجارہاہے۔