عام خیال یہ ہے کہ کشمیرمیں موسم سرما کی آمد کا کلینڈر بتدریج تبدیل ہورہاہے۔ اس سال تقریباً ایک ماہ قبل ہی موسم سرما نے اپنی آمد کا ہی بگل نہیں بجایا بلکہ ٹھٹھرتی سردیوں کی شدت کے حوالہ سے اپنے تیور بھی بتادیئے۔ عموماً دستمبر کے دوسرے، تیسرے ہفتے میں موسم کروٹ لیتا رہا ہے اور چلہ کلان کی شروعات تک اپنے پورے آکار کے ساتھ جلوہ گر ہوتا رہا ہے لیکن اب کی بار کچھ اور ہی نظرآرہاہے اورمحسوس بھی کیاجارہاہے۔
کیا یہ موسمیاتی تبدیلی کابراہ راست نتیجہ ہے ، اتفاق تو اسی رائے پر ہے، ورنہ دوسری صورت میں اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ بہرحال سرما کی آمد کیساتھ ہی سردیوں میں شدت نے اپنے ساتھ ڈھیر سارے مسائل اور پریشانیوں کو بھی لاکر عوام پر مسلط کردیاہے۔ بجلی کی آنکھ مچولی اور سپلائی میں اوسطاً ۱۲۔۱۴؍گھنٹے کی اعلانیہ اور بغیر اعلانیہ کٹوتی تو کشمیرکے سردموسم کا ہی ان مٹ تسلسل ہے۔
ان ایام میں کشمیر کا کوئی ایک بازار ایسا نہیں جو اپنے روزمرہ کے صارفین کو کسی بھی حوالہ سے راحت پہنچا رہا ہو، ہر بازار چاہئے وہ مصروف ترین مارکیٹ میں ہے، سڑک پر واقعہ ہے یا گلی کوچے میں ہے گراں بازاری کا ریکارڈ قائم کرتا جارہاہے۔ اوسط استعمال کی ساگ سبزیوں، گوشت، پولٹری ، انڈے ،خوردنی اجناس، تیل خوردنی، گرم ملبوسات غرض وہ کون سی شئے ہے جس کی آڑ میں گراں بازاری کا قہر اوسط صارفین پر نہیں ڈھایاجارہاہے۔ لوٹ ،گراںبازاری ، مصنوعی قلت، استحصال، ناجائز منافع خوری اور لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ سردیوں کے ایا م ہوں یا موسم گرما کے کاروباریوں کے آئین کا اساس ٹھہر چکا ہے۔
اوسط شہری دہائی دے رہے ہیں، سینہ کوبی کرتے نظرآرہے ہیں، چیخ رہے ہیں اور چلا بھی رہے ہیں کہ حکومت اور اسکی ایڈمنسٹریشن تماشائی کا رول اداکررہی ہے جبکہ کچھ حلقے یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ کاروباری متعلقہ اتھارٹیز کی مٹھی گرم کرکے اور ان کی جیبیں بھر بھرکر عوام کی چیخ وپکار کو سنی ان سنی کرنے کا راستہ اختیار کررہے ہیں، ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ٹیبل کے نیچے سے ہاتھ بدلنے کی روایت اور طریقہ کار کوراہداری نہ ملی ہوتی تو عوام راحت ضرور محسوس کرتے لیکن ناجائز وسائل کا حصول کورپشن اور زیروٹالرنس کے دعوئوں کے ہوتے بالکل ناک کے نیچے جاری ہے۔ ایسے معاملات میں دستاویزی ثبوت اور شہادتوں کو ممکن بناناکوئی آسان کام نہیں۔ اس کیلئے سو طریقے ہیں جنہیں بروئے کار لایاجارہاہے ، ضروری نہیں دفاتر میں موجود ٹیبل ہی کا سہارا لیاجائے۔
کورپشن اور بدعنوان طرزعمل یا طریقہ کار کے خاتمہ یا عدم برداشت کادعویٰ تو کیاجاسکتا ہے لیکن دُنیا کی کوئی بھی حکومت سو فیصد کامیابی اور زیروٹالرنس کے تعلق سے نتیجہ خیز عمل آوری کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے۔ پھر جموں وکشمیر کی اس حوالہ سے اپنی مخصوص روایت ہے ، روایت دستاویزی ثبوتوں اور زمینی حقائق کی موجودگی کے حوالہ سے معاملات زیر نظر نہ ہوتے تو ملک کی دوسری بڑی کورپٹ کا درجہ ہر گز حاصل نہ کرتی۔اگر چہ تب سے اب تک جہلم اور توی دریائوں کا بہت سارا پانی بہہ چکا ہے لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ کورپشن بھی جاری ہے اور بدعنوان طریقہ کار بھی۔
اس تناظرمیں دو اہم سوالات ہیں، ایک یہ کہ جب ایڈمنسٹریشن کے متعلقہ اداروں کا طریقہ کار معلوم ہو، عوامی مسائل کے تئیں ان کے رویوں کی شہادتیں بھی دستیاب ہوں تو لوگ کیوں یہ توقع کررہے ہیں کہ انہیں گراں بازاری، لوٹ اور استحصالی طور طریقوں سے نجات دلانے کیلئے ایڈمنسٹریشن متحرک اور فعال رول اداکرنے کیلئے میدان میں اُتر ے گی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ گراں بازاری، استحصال کرنے، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھنے میں کون لوگ پیش پیش ہیں۔ جو بھی ملوث ہیں کیا وہ اسی سماج کا حصہ نہیں، وہ بہار اُترپردیش ،جھارکھنڈ، بنگال وغیرہ علاقوں سے تعلق نہیں رکھتے، لوگ ایڈمنسٹریشن سے توقعات وابستہ رکھتے ہیںاور مایوس ہوکر لوٹ جاتے ہیں لیکن کیا میوہ فروش ، دودھ فروش، پولٹری فروش، ملیاری اور سبزی فروش ، قصاب اور پولٹری کاروبار سے وابستہ لوگ ،اوسط دکاندار کیااسی معاشرے کا حصہ نہیںان کا محاسبہ کیوں نہیں کیاجاتاہے، اگر حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے خلاف مطالبات اور مانگوں کولے کر لوگ سڑکوں پر آجاتے ہیں اور درپیش معاملات کو زبان دے رہے ہیں تو کیوں عوامی سطح پرکاروباریوں، بیوپاریوں ، سٹاکسٹوں اور سپلائر وں کے خلاف کوئی منظم مزاحمتی تحریک کی اُٹھان نظرنہیں آتی؟
بجلی کی سپلائی میںکٹوتی اور آنکھ مچولی کے حوالہ سے نان میٹر والے علاقوں کے لوگ عموماً سراپا احتجاج نظرآرہے ہیں ۔احتجاج کا انہیں بھر پور حق حاصل ہے لیکن احتجاج کاراستہ اختیار کرنے سے پہلے وہ اپنے طریقہ کار اور ذمہ داریوں کے تعلق سے خود کا محاسبہ کیوںنہیں کرتے۔ میٹر والے علاقوں کے لوگ بھر پور بجلی فیس اداکررہے ہیں لیکن انہیں بھی کٹوتی اور آنکھ مچولی کا بوجھ برداشت کرنا پڑرہاہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کا یہ بوجھ نان میٹروالے رہائشوں کے بجلی کے غیر منصفانہ استعمال ، ہکنگ،ہیٹر اور دوسرے آلات کے بے دریغ استعمال کاہی ثمرہ ہے۔ سب سے اہم یہ کہ جب ان علاقوں میں ڈیجٹل میٹر نصب کرنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ لوگ سڑکوں پراحتجاج کرنے کیلئے جمع ہوجاتے ہیں اور ہر طرح کی زورزبردستی کا راستہ اختیار کرکے راہگیروں کی عبور ومرور کو ناممکن بھی بنادیتے ہیں۔ کچھ تو اپنی بھی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔
بہرکیف اس سارے منظرنامے کا براہ راست تعلق معاشرتی سوچ، طرزعمل اور طریقہ کار سے ہے، مادیت سے ہے اور عرصہ دراز سے پنپ رہی اخلاقی اور اقدار کی انحطاط پذیری سے ہے۔ یہ بھی کہ اگر گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران دہلی کی آشیرواد کے ساتھ اس کی مقامی قیادت کے عملی اشتراک سے اندھی سیاسی مصلحتوں کے تحت دی جارہی سبسڈیوں اور غلط کاریوں کی سرپرستی نہ کی گئی ہوتی تا تو شاید آج جموں وکشمیر کا یہ لینڈ سکیپ دیکھنے کو نہ ملتا۔