پاکستان آرمی سربراہ قمرجاوید باجوہ کے جانشین کا انتخاب عمل میں لایاگیا ہے، جنرل عاصم منیر پاکستان کے اگلے آرمی سربراہ ہوں گے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک نے اس تقرری کا خیر مقدم کیا ہے البتہ دہلی کے قریبی ذرائع کی طرف سے کچھ تحفظات اور کچھ خدشات کا اظہار سامنے آرہاہے۔ یہ کہا جارہاہے کہ جنرل عاصم بحیثیت آئی ایس آئی ڈی جی کے طور پلوامہ دہشت گردانہ واقعہ کے وقت عہدے پر فائز تھے لہٰذا اس تناظرمیں ان کی حکمت عملی کیا رہیگی اُس پر نگاہ اور توجہ رہیگی۔
قطع نظر تحفظات اور خدشات کے اہم سوال جوفی الوقت سرینگر سے لے کر کنیا کماری تک عوامی، سیاسی اور عسکری حلقوں میں زیر توجہ ہے یہ ہے کہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پر تقریباً دو سال سے جو جنگ بندی کا میابی کے ساتھ برقرار اور جاری ہے کیا نئے آرمی چیف کی اس جنگ بندی کو تائید اور توثیق حاصل رہے گی یا ماضی کی طرف الٹے قدموں واپسی کا راستہ اختیار کیاجائے گا۔ سبکدوش ہورہے آرمی چیف جنرل باجوہ کو یہ کریڈٹ دیاجارہاہے کہ انہوںنے اس جنگ بندی کو ممکن بنانے کی سمت میں اہم کردارادا کیا، صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ماضی کے حوالہ سے معاملات اور تصفیہ طلب امورات کو فی الحال حاشیہ پر رکھ کر ہندوستان اور پاکستان دونوں کو مشورہ دیا کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے آگے بڑھیں، لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان کی سیاسی اورحکومتی قیادت نے اپنے فوجی جنرل کے اس مشورہ کو کسی احترام کا قابل نہ سمجھا ۔ اس حوالہ سے سابق وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت کی بگڑتی صورتحال اور تجارتی خسارے میں بتدریج اضافہ سے پریشان حالت میں ہندوستان سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن ان کی کابینہ نے اس خواہش کو اپنی ہنددُشمنی روایت کے جذبے سے سرشار زمین بوس کردیا، عمران خان بس دیکھتے ہی رہ گئے۔
نیا آرمی چیف اپنے پیشرو کے مشن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے خود کو وقف کریں گے یا سرد خانے میں ڈانے کا راستہ اختیار کریں گے ، کچھ کہنا مشکل ہے البتہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں آرمی کی مداخلت، حکومتوں کی تشکیل اور منتخبہ حکومتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی آرمی کی مہم جوئیوں ، ملک کے انتظامی، معاشی اور خارجی معاملات میں آرمی کی مداخلت اور فیصلہ سازی میں کردار کے حوالہ سے سبکدوش آرمی سربراہ جنرل باجوہ نے اپنے الوداعی خطبے میں جس انداز اور لہجہ میں اعتراف کیا ہے اس کا پاکستان میں بحیثیت مجموعی خیر مقدم توکیاجارہاہے لیکن نئے آرمی چیف کی قیادت، جو توقع ہے کہ آئندہ تین سال تک رہیگی، میں کیا آرمی سیاسی معاملات میں مداخلت اور اپنے آئینی دائرہ کار کے حدود میں اپنے رول اور کردار نبھانے کا باجوہ کے آخری دورقیادت کے دوران دور رہنے کے فیصلے کی پابند رہیگی؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔
لیکن اس تصویر کا ایک اور رُخ بھی ہے جس کا تعلق جموں وکشمیر سے ہے۔جموں وکشمیرمیں عام لوگ اس نئی تقرری پر گہری نگاہ رکھ رہے ہیں۔ یہ سوال آپس میں کیاجارہاہے کہ کنٹرول لائن پر جو جنگ بندی اب تقریباً دو سال سے ہے کیا وہ برقرار رہیگی یا پُرانے زمانے کی طرف الٹے قدموں واپسی ہوگی، کیا دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہوکر تیزی لائی جائیگی یا حوصلہ شکنی کا راستہ قیام امن کے وسیع ترمفادات اور تناظرمیں اختیار کیاجائیگا، جبکہ کچھ حساس اور ذمہ دار حلقے یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ اگر پاکستان کی سیاسی، حکومتی اور آرمی کی قیادت اپنے ملک کے اندر کچھ خطوں میں مسلح افراد کی ہلاکت خیز سرگرمیوں جن کے نتیجہ میں خود پاکستان آرمی کے وردی پوش جوان بھی نشانہ بن رہے ہیں کودہشت گردی تصورکرکے اس دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کو ملکی مفادات میں صحیح اور جائز تصور کررہے ہیں تو جموں وکشمیرکیلئے سرحدوں کے قریب کچھ لانچنگ پیڈوں میں موجود مسلح جنگجوئوں ؍دہشت گردوں کی موجودگی اور پھر ان کی جموں وکشمیر کی طرف دراندازی کی کوششیں کیوں دہشت گردی تصور نہیں کی جارہی ہے؟
کنٹرول لائن پر دو سال سے جاری جنگ بندی کا ثمرہ کنٹرول لائن کے آر پار سرحدی آبادی کو حاصل ہورہاہے، ان کا جان ومال، عزت اور اثاثوں واملاک کا تحفظ اس مدت کے دوران یقینی بن گیا، سرحدی آبادی اپنے اپنے گھروں میں سکون سے رہائش پذیر ہے جبکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ روزمرہ کی سرگرمیوں اور مصروفیات سے بھی وابستہ ہیں، لہٰذا اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی خواہش شدید ہے جبکہ توقع بھی یہی کی جارہی ہے کہ نیا آرمی سربراہ اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی سمت میں اپنا مثبت اور تعمیری رول اداکریںگے اور کسی مہم جوئی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ امر اس حوالہ سے قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سیاست، انتظامیہ اور دوسرے حلقوں جن سے بہت سارے مسلح جتھے وابستہ ہیں، ماضی میں اس نوعیت کی مہم جوئیوں کا اتکاب کرچکے ہیں کیونکہ وہ خود کو کسی ڈسپلن یا ضابطہ کا پابند نہیں سمجھتے۔ پھر خود آرمی کے اندر پرویز مشرف ایسی ذہنیت اور اپروچ کے لوگ بھی تو موجود ہیں جو موقع کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔
اس تناظرمیں خدشات اورتحفظات کا لاحق ہونا فطرتی امرہے۔ یہ خدشات اور تحفظات اس امرکو بھی واضح کررہے ہیں کہ سرحدوں کی نگرانی میں کسی بھی طرح کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، دراندازی کے حوالہ سے ایک مضبوط مگر ٹھوس میکانزم اختیار کرنے کی ضرورت ناگزیر بن جاتی ہے۔ دوسرے کئی وابستہ امورات بھی ہیں جنہیںحرف نظرنہیں کیاجاسکتا ہے۔