الیکٹورل رولز (فہرست رائے دہندگان) کی حمتی اشاعت کے ساتھ ہی اب نگاہیں الیکشن کے انعقاد کے تعلق سے بُنیادی لوازمات کی تکمیل اور تیاریوں کی جانب مبذول ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے تاریخ کا تعین مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کے حد اختیار میں ہے، اس تعلق سے جموں وکشمیریوٹی کارول نہ ہونے کے برابر ہے البتہ مشاورت کی حد تک !
کشمیر اور جموں نشین کم وبیش سبھی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں، جب بھی اعلان ہوگا وہ میدان میں کود جائینگی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ دلچسپ مگر توجہ طلب پہلو بھی نظرآرہے ہیں جن کا تعلق حصول اقتدار اور حکومت کی تشکیل سے ہے۔ کشمیرکی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ قیادت کے کچھ دعویدار اس یقین میں مبتلا ہیں کہ جب بھی الیکشن ہوں گے ان کی پارٹی کو بھاری عوامی منڈیٹ حاصل ہوگا۔ چنانچہ ہر پارٹی کا سربراہ ابھی سے خودکو یوٹی کا اگلا وزیراعلیٰ کے طور دیکھ رہاہے۔ وزیراعلیٰ کی اس دوڑ میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی ،سید الطاف بخاری، سجاد غنی لون سرفہرست ہیں جبکہ جموں سے وزیراعظم کے دفترمیں گذشتہ ۸؍سالوں سے بحیثیت وزیر کے فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر جتیندر سنگھ ، سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد سرفہرست ہیں۔ لیکن کچھ دوسری صف کے کچھ چہرے بھی اس دوڑ میں خود کو ’’ڈارک ہارسز‘‘ تصورکررہے ہیں لیکن اس کا انحصار کچھ ایسے امورات سے ہیں جو فی الوقت زیربحث نہیں البتہ زیر نظر ضرور ہیں، ان ڈارک ہارسز کی صف میں سابق نائب وزیراعلیٰ مظفر حسین بیگ کو بھی شامل کیاجاسکتاہے۔ جو ماضی میں پی ڈی پی کا حصہ رہے ہیں اور پارٹی سے علیحدگی کے بعد سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس میںشامل ہوئے اور اپنی اس شمولیت کو گھر واپسی قرار دیاتھا لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ وہ فی الوقت کسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہیں اور وابستگی کے بارے میں ضرورت پڑنے پر آنے والے دنوں میں سو چا جاسکتاہے ۔ مظفر حسین بیگ مرکز کے قریب سمجھے جارہے ہیں۔
بہرحال حصول اقتدار کی اس دوڑ میں سبقت حاصل کرنے کیلئے پارٹیاں ایک دوسرے پر جموں وکشمیر میںبی جے پی کی ’بی‘ اور ’سی‘ ٹیمیں قرار دے رہی ہیں اور لوگوں میں اس تاثر کو جگہ دے کر کسی حد تک مستحکم بنانے کی زبردست کوشش کی جارہی ہے۔ این سی کا کہنا ہے کہ اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس بی جے پی کی ہی شکمی شریک ہیں جبکہ اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس این سی پر مسلسل الزام لگاتی رہی ہے کہ یہ پارٹی ماضی میں بی جے پی کی شریک اقتدار رہی ہے چاہئے مرکز میں جموں میونسپلٹی میں یا کرگل ہل کونسل کے حوالہ سے۔
ملکی سطح پر محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی کو نرم گفتار کی علیحدگی پسند تنظیم کے طور پر دیکھاجارہاہے جبکہ کچھ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو مسلسل لتاڈتی چلی آرہی ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ اقتدار میں شریک رہی ہیں۔
حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کی دوڑ سیاسی جماعتوں کے کلچر کی بُنیاد ہے اور کوئی بھی پارٹی اپنے اس مخصوص کلچر کا دامن تیاگ نہیں سکتی اور نہ ہی ایسا کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے اوسط شہری یا اس تعلق سے اوسط رائے دہندہ کو پارٹیوں کے اس کلچر پر کوئی اعتراض نہیں البتہ ناپسندیدگی اس بات پر ہے کہ اپنے اس کلچر کی آبیاری کرنے اور اس کی جڑوں کو مضبوط بنانے کی سمت میں پارٹیاں عوام کے وسیع تر مفادات حقوق… آئینی ، سماجی ، اقتصادی، معاشرتی ،لسانی ، انسانی اور سیاسی سلب کرنے، انہیں جزوی طور سے یا کلی طور سے چھین لینے یا محسوس اور غیر محسوس طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کو گمراہ بھی کرتی ہیں اور خوشنما نعروں کی آڑ میں لوگوں کو گھماتی بھی ہیں۔
عوام کے وسیع ترمفادات کے ساتھ ساتھ جغرافیائی وحدت اور سالمیت کے حوالہ سے مفادات کا تحفظ جماعتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ لوگوں کو زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے جن گوناگوں مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، بے روزگاری اور بے کاری کے سنگین مضمرات سے انہیں جوجھنا پڑرہاہے، مسلح دہشت گردی کا معاملہ ہو یا فکری یا ہجومی دہشت گرد ی کا معاشروں کو مسئلہ درپیش ہو، ان سے عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی زندگیوں اور مال وعزت و آبرو کا تحفظ یقینی بنانے کی سمت میں ناگزیر اقدامات کی پہل، گراں بازاری، لوٹ مار، استحصالانہ روش، غنڈہ گردی، ٹریفک کے سنگین مسائل، سڑکوں کی خستہ حالی، پانی، بجلی اور سڑک سے وابستہ معاملات پارٹیوں کی بُنیادی ترجیحات ہونی چاہئے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پارٹیاں حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کو ترجیح تو د ے رہی ہیں لیکن اہم عوامی معاملات اور مسائل کو ثانوی درجہ بھی دینے کیلئے تیار نہیں۔
اس مخصوص منظرنامہ میں وزیراعلیٰ کی دوڑ میں جو لوگ شامل نظرآرہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تجزیہ کرنا لازمی بن جاتا ہے کہ آیا کیاوہ ان عوامی معاملات کی کسوٹی پر پورا اُترنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور کیا جن مسائل کا سامنا لوگوں کو ہے کیا وہ ان مسائل کاحل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاست اور سیاسی نظریات اور سیاسی عقیدوں کی راگنی اپنی جگہ، ان کی اہمیت اپنی جگہ سوال یہ ہے کہ جو جموں وکشمیر گذشتہ تقریباً ۳۲؍ سال سے نامساعد حالات کا شکار ہے، عوام طرح طرح کی تکلیفوں ، الجھنوں ، پریشانیوں اور مصائب میں مبتلا ہوکر ان کے بوجھ تلے دبتے اور کچلے جارہے ہیں سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت کرنے والے لیڈروں کی کیا یہ صلاحیت اور اہلیت ہے کہ وہ لوگوں کے لئے راحت اور سکون کا بندوبست کریں۔
گذرے چند برسوں کے دوران اس لیڈر شپ نے جو بھی رول اداکیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس رول اور کردار کے تناظرمیں ان سے کیا کچھ اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں اس بارے میں جموںوکشمیر کے رائے دہندگان ہی بہتر جج کا کردار اداکرسکتے ہیں۔