کشمیر خاموش ہے البتہ جموں، لداخ اور کرگل نہیں۔ کشمیرخاموش کیوں ہے جبکہ لداخ اور جموں کے لوگ، کاروباری طبقے، سوشل اور سیاسی حلقے اپنے اپنے درپیش مسائل، سیاسی ہوں یا معاشی، معاشرتی ہوں یا تعمیراتی کسی بھی حوالہ سے ہوں اپنے جذبات، محسوسات اور ضروریات کو زبان دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس کشمیرکا ہرطبقہ خاموش اور لب بہ مہر ہے۔ البتہ جہاں کہیں بجلی کی سپلائی میں ان کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہوں رہی ہے اس پر آواز ضرور بلند کررہے ہیں۔
ایسا کیوں ؟ یہ سوال ملٹی بلین ڈالر کا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس جموں کی سیاسی قیادت، سول سوسائٹی ، کاروباری اور تجارتی طبقے بشمول میڈیا ان تمام اشوز پربول رہے ہیں جن اشوز کا انہیں سامنا ہے یا جن اشوز کووہ اُجاگر کرکے ایڈمنسٹریشن کی نوٹس میں لانے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ وہ ہچکچاہتے نہیں۔ سیاسی واقتصادی معاملات چاہئے ان کا تعلق انتقال دفاتر (دربارمو) کے خاتمے سے ہے، دفعہ ۳۵؍ اے اور ۳۷۰؍ کو آئین سے ختم کرنے سے ہے، تعمیراتی اور ترقیاتی سرگرمیوں سے ہے،ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالہ سے ہے، یا اور کسی سماجی اشوز سے اپنے محسوسات اور جذبات کو زبان دی جارہی ہے بلکہ اپنی آواز کو شدت عطاکرنے کیلئے گاہے بہ گاہے سڑک پر بھی آجاتے ہیں۔
یہی منظرنامہ کرگل اور لیہہ کے حوالہ سے اُبھرتا نظرآرہاہے۔ ابھی چند روز قبل اپنے کچھ اہم مطالبات کے تعلق سے خطے میں زبردست احتجاج کیاگیا، جلوس نکالنے گئے اور متعلقہ ضلعی حکام اور ایڈمنسٹریشن کو اپنے مطالبات پر مشتمل میمورنڈم پیش کئے گئے۔ لداخ کے پورے خطے کا مطالبہ یہ ہے کہ خطے کو ریاست کادرجہ دیاجائے، سرکاری ملازمتوں کو سو فیصد مقامی نوجوانوں کیلئے وقف کردیاجائے، زمین پر ملکیتی حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے بغیر زمینوں کے ٹائٹل کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بنایاجائے، چھٹے شیڈول کا نفاذ عمل میں لایاجائے ،ان سارے مطالبات کو منوانے کیلئے کرگل اور لداخ کی سیاسی اور سماجی قیادت ایک جھنڈے تلے متحد ہے اور مل جل کر اپنے مسائل کیلئے مشترکہ طور سے جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کے اس اتحاد کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مرکزی قیادت نے ایک اعلیٰ سطحی ٹیم معاملات اور مطالبات پر بات کرنے کیلئے روانہ کرنے کا فیصلہ کیا، اس کے اعلان کے ساتھ ہی لداخ کی ایپکس باڈی نے اپنے احتجاج کی کال منسوخ کردی ۔ یہ اتحاد اور موثر طریقے سے آواز بلند کرنے کا ثمرہ ہے۔ اسی طرح جموں کے کاروباریوں اور تاجر برادری نے گذشتہ دنوں دربارمو کی منسوخی کے خلاف ایک اور احتجاجی ریلی برآمد کی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ اس ڈیڑھ سو سالہ روایت کو برقرار رکھنے کیلئے دربارمو کی منسوخی کا فیصلہ منسوخ کردیاجائے ۔ احتجاجیوں کا کہناتھاکہ حکومت تو دعویٰ کررہی ہے کہ دربارمو ختم کرنے سے خزانہ کو دو سو کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے لیکن اس روایت کے خاتمہ سے کاروباریوں کو ۵؍ہزار کروڑ کا جو خسارہ ہوا اس پر بات نہیں کی جارہی ہے۔ دربارمو کی منسوخی اور اخراجات کے حوالہ سے حکومت کے دعویٰ کس حد تک صحیح یا غلط ہیں یا کاروباریوں کا اس تعلق سے جو کچھ بھی دعویٰ کیاجارہاہے ان دونوں کے بارے میں زیادہ کچھ کہے بغیر اہم یہ ہے کہ جموں کے سماج کا ایک اہم ترین طبقہ اس ڈیڑھ سو سالہ روایت کی منسوخی کی مخالفت پر اب ایک سال سے کمربستہ ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ غالباً واقعی جموں کو بحیثیت مجموعی ملٹی کروڑ خسارہ کا سامنا ہے۔
اب اس حوالہ سے حکومت کا ردعمل کیا ہوگا اور آنے والے دنوں میں اس مطالبہ کی کچھ پذیرائی کی جائیگی یا سر ے سے مسترد کرنے کا راستہ اختیار کیا جاتا ر ہے گا اس پر توجہ رہیگی۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ کشمیر کو دربارمو کی منسوخی سے کوئی نقصان نہیں ہوا اور جو ۵؍ہزار کروڑ کے کاروبار کے خسارے کا دعویٰ کیاجارہاہے وہ سرمایہ کشمیرمیںہی رہے گا۔ یہ پہلو بھی کشمیر کی خاموشی کی ایک وجہ ہوسکتی ہے ۔ البتہ کشمیرکی خاموشی کی کئی دوسرے وجوہات بھی ہیں۔ جن میں کم وبیش سبھی سیاسی جماعتوں… نیشنل کانفرنس، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی، کانگریس یونٹ، پی ڈی پی وغیرہ اور ان جماعتوں سے وابستہ لیڈر شپ کی خاموشی یا دوسرے الفاظ میں معذرت خواہانہ رویہ اور اپروچ سرفہرست قراردیاجاسکتاہے۔
کشمیر نشین سیاسی قیادت کے کم وبیش سبھی دعویداروں کی ایک قدرمشترک یہ ہے کہ وہ جلد از جلد الیکشن چاہتے ہیں، اس کے اہتمام وانعقاد کا مطالبہ بھی پورے زور وشور سے کررہے ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ اقتدار کی لیلیٰ چاہئے جزوی طور ہی سہی، ان کے گلے کا ہار بن جائے تاکہ وہ اقتدار ، طاقت اور دبدبہ کے تعلق سے اپنے عظمت رفتہ کی بحالی اور ثمرات سے محذوظ ہوسکیں۔
الیکشن اہم ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے، جمہوری طرزنظام میں اس کی عدم عمل آوری آمریت اور تحکمانہ انداز فکر اور طرزعمل کو جنم دینے کا اہم موجب بن جاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیرکی مجموعی سیاسی قیادت کی دال الگ الگ جیوتیوں میں بٹ چکی ہے ، کسی بھی حساس یا غیر حساس سیاسی ترقیاتی اور اقتصادی معاملے پریہ متحد نہیں اور نہ ان اشوز پر بات کررہی ہے۔ ان حساس نوعیت کے معاملات پر مسلسل خاموشی نے اس ساری سیاسی قیادت کی ہوس اقتدار اورعیاشیوں کے حصول کی چاہت نے انہیں بے نقاب کررکھا ہے جبکہ ان معاملات کے تعلق سے ان سبھی کا معذرت خواہانہ طرزعمل سنجیدہ اور حساس عوامی حلقوں میں زیر بحث بھی ہے اور توجہ کا مرکز بھی !