حکومت نے سرکاری اساتذہ کی نجی پریکٹس پر پابندی عائد کرنے کا حکم نامہ جاری کردیاہے اور خلا ف ورزی کے مرتکب اساتذہ کو وارننگ دی ہے کہ ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ یہ پہلاموقعہ نہیں ہے کہ جب اساتذہ کی پرائیوٹ پریکٹس کے حوالہ سے حکومت نے احکامات صادر کئے ہوں لیکن ان حکم ناموں پر بہت کم عمل آوری کو دیکھا گیا ہے۔ غالباً اسی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پابندی کا تازہ ترین حکم نامہ اجرا کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔
حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سارے اساتذہ اپنے فرائض منصبی کو حاشیہ پر رکھ کر نجی کو چنگ اداروں سے وابستہ ہو کر نجی پریکٹس کررہے ہیں جو اصولاً سروس کنڈکٹ رولز کے سراسر منافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہورہاہے؟ کیوں اساتذہ کی ایک اچھی خاصی تعداد نجی کوچنگ مراکز سے وابستہ ہوکر اپنے لئے فاضل ذرائع آمدن کی گنجائش پیدا کررہے ہیں ۔ وہ ایسا اپنی معاشی بدحالی پر قابو پانے کیلئے کررہے ہیں یا اور کوئی مصلحت یا مجبوری انہیں درپیش ہے۔
شعبہ صحت کے تعلق سے ڈاکٹروں کی پرائیوٹ پریکٹس پر بھی پابندی ہے اور اس پابندی کا اطلاق سو فیصد یقینی بنانے اور پرائیوٹ پریکٹس نہ کرنے کی حوصلہ افزائی کے طور حکومت ایسے ڈاکٹروں کو نان پریکٹس الائونس اداکررہی ہے۔ اساتذہ کے معاملے میں ایسی کوئی مالی شق یا ترغیب نہیں۔ ڈاکٹر ہو یا استاد دونوں اپنے فرائض منصبی کے حوالوں سے پیشہ ور ہیں لیکن ساتھ ہی اس حیثیت کے حوالہ سے سرکاری ملازم بھی ہیں اور ملازمت کے حوالہ سے کچھ لوازمات ،کچھ قوائد اور کچھ ضوابط ہیں جن کا احترام ان پر لازم ہے ۔لیکن یہاں حکومت باہم متضاد راستوں پر گامزن نظرآرہی ہے۔ ایک پیشہ ور کے لئے بطور ترغیب وحوصلہ افزائی کیلئے نان پریکٹسنگ الائونس کی ادائیگی جبکہ دوسرے کیلئے صرف پابندی۔
بہرحال ان دونوں پیشہ وروں کیلئے حکومت کا اپنا ایک مخصوص نظریہ ہوسکتا ہے ، حکومت کی جو سوچ ہے وہ اپنی جگہ درست بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ جن پیشہ وروں پرپابندی عائد کی جارہی ہے ان کی سوچ مختلف ہوسکتی ہے۔ دونوں انداز فکر اور طرزعمل میںیکسانیت اور مسابقت لانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ یکسانیت اور مسابقت حکومت ہی کے حد اختیارات میں ہے۔
البتہ نجی پریکٹس ، اس پر پابندی اور نا ن پریکٹس الائونس کی ادائیگی کے طریقہ کار کا قریب سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پیشہ ور کوئی بھی ہولیکن سرکاری ملازمت کے تعلق سے خزانہ سے تنخواہ کے عوض مالی فائدہ بھی حاصل کررہا ہو کے لئے لازم ہے کہ وہ قوائد وضوابط کا احترام اپنے اوپر لازم رکھیں۔ سرکاری مقررہ اوقات کا رکے دوران اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اس کااحترام کرے اور جو کچھ بھی فرائض میںشامل ہے سرکاری اوقات کار کے دوران اس کی تکمیل کرے۔ اس ضمن میں اس کیلئے لازم ہے کہ وہ مقررہ اوقات کے دورا ن نجی پریکٹس سے دور رہے ۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی بھی پیشہ ور کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی معیشتی حالت بہتر بنانے اور اپنے اہل کی ضرورتوں کی تکمیل یقینی بنانے کیلئے اپنا عرق بہا کر معاشرتی سطح پر اپنی خدمات بغیر کسی قدغن کے دستیاب رکھیں۔ لیکن اس کیلئے وہ اس بات کو ملحوظ خاطررکھیں کہ سرکاری اوقات کار کے دوران نہیں بلکہ مقررہ اوقات کے بعد!
پھر درس وتدریس سے وابستہ کچھ اور بھی پہلو ہیں جن کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرکاری تعلیمی نظام جو کچھ بھی ہے یا جن خطوط پر فی الوقت آراستہ ہے اس میں جموں وکشمیر کے حوالہ سے کئی خامیاں اور کمزوریاں سالہاسال سے موجود ہیں جنہیں دورکرنے کی ضرورت ہے ۔ ادارتی ڈھانچے مضبوط نہیں یا اگر دستیاب ہے تو دسویں تک چند کلاس روم ہی دستیاب ہے اساتذہ کی کچھ تعداد وہ بھی ہے جو اس کی صلاحیتوں سے قدرے مبرا ہیں یا اپنے فرائض کو درس کے تعلق سے سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ کشمیرمیں سکولوں کیلئے دستیاب ادارتی ڈھانچوں کی بات کی جائے تو زیرتعلیم بچوں اور اساتذہ کیلئے ان میں وہ سہولیات دستیاب نہیں جو روزمرہ زندگی کے تعلق سے مطلوب ہیں ۔کچھ ہائر اور ہائرسیکنڈری اداروں کے سربراہاں انتظامی صلاحیت کے گہرے فقدان میں مبتلا ہیں اور مختلف کاموں کیلئے دستیاب اورمخصوص فنڈز کا استعمال ان کی صلاحیتوں سے بہت دور ہے۔کہیں بیت الخلاء دستیاب نہیں تو کہیں پانی اور بجلی دستیاب نہیں، کہیں لائبریوں کی سہولیات بچوں کی دسترس سے بہت دور ہے تو کہیں تجربہ گاہیں سرے سے دستیاب نہیں۔
بہرحال نئی قومی تعلیمی پالیسی قومی سطح پر ایک نئی مگر پراُمید سحر کے ساتھ طلوع ہوئی ہے، ضرورت ذمہ دارانہ عمل آوری اور عمل آوری کو یقینی بنانے کیلئے جذبہ اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں آج جو پود تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہی ہے درحقیقت وہ ہمارے کل کے معمار اور مستقبل کی ضمانت ہیں۔ کل کے ان معماروں کی تربیت نہ صرف دنیاوی تعلیم جدید ترین تقاضوں سے ہم آہنگ ہو بلکہ معاشرتی اقدار کے تحفظ و ترویج کے نظریہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کے اندر جذبہ اخوات، باہمی ربط وضبط ، رواداری، ایک دوسرے کا احترام کا مادہ بھی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح سرائیت کرانے کی ضرورت ہے۔
درس وتعلیم کو پیشہ ورانہ بنانے کی طرف بھی توجہ اور وسائل وقف کرنے کی ضرورت ہے۔بڑھتی بے روزگاری کے دیو کو قابو میں کرنے کی سمت میں تعلیمی نظام کو پیشہ ورانہ سمت عطاکرنے کی گذرے کل کی نسبت آج کی تاریخ میں زیادہ ضرور ت ہے۔ اگر چہ تعلیم کے کچھ شعبوں کو پیشہ ورانہ تربیت سے منسلک کردیاگیاہے لیکن اس کو وسعت دینے کی گنجائش بھی ہے اور ضرورت بھی ہے۔