جنیوا/۱۶؍مارچ
اقوام متحدہ نے میانمار میں گزشتہ سال فوجی بغاوت کے بعد انسانی حقوق کے حوالے سے پہلی جامع رپورٹ شائع کی ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد میانمار میں انسانی زندگی کی شرمناک توہین اور انسانیت کے خلاف جرائم کے واضح شواہد ملے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشیل بییشلے نے پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ گزشتہ سال کی فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار میں فوج انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیو ں میں مصروف ہے ان میں سے بعض جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔
انہوں نے رپورٹ سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ بہت سے لوگوں کو سر میں گولیاں ماری گئیں، زندہ جلا کرمار ڈالا گیا، کسی الزام کے بغیر گرفتار کیا گیا، اذیتیں دی گئیں یا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔
انہوں نے بین الاقوامی برادری سے اس کے خلاف بامعنی اور موثر کارروائی کرنے کی درخواست کی۔
بیشلے نے کہا کہ میانمار کے عوام کے ساتھ جس طرح کی زیادتی کی جارہی ہے اور بین الاقوامی قانون کی جس بڑے پیمانے پر اور کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے وہ ایک ٹھوس، متحد اور سخت بین الاقوامی کارروائی کا متقاضی ہے۔
میانمار آرمی کا کہنا ہے کہ امن اور سلامتی کو یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے اس نے کسی بھی طرح کی زیادتی سے انکار کیا اور دہشت گردوں کو بدامنی پھیلانے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔یاد رہے کہ فروری 2021 میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے بعد سے فوج اب تک اقتدار کو مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد سے فوج کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔
عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کے بعد مغربی ملکوں نے فوج پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔