بنگلورو// بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے نئے صدر راجر بنی نے جمعہ کو کہا کہ کھلاڑیوں کے اکثر زخمی ہونے کے مسئلہ کو حل کرنا ان کی ترجیح ہے۔
ہندوستانی ٹیم فی الحال ٹی۔ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں شرکت کے لیے آسٹریلیا گئی ہے۔ ہندوستان اتوار کو پاکستان کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کرنے والا ہے، حالانکہ ٹیم کے سرکردہ باؤلر جسپریت بمراہ کمر کی چوٹ کی وجہ سے ٹورنامنٹ سے باہر ہیں۔
بنی نے یہاں نامہ نگاروں سے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ جسپریت بمراہ ورلڈ کپ سے 10 دن پہلے زخمی ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کھلاڑی اتنی آسانی سے کیوں اور کیسے زخمی ہو رہے ہیں، نہ صرف اب بلکہ چار پانچ سال سے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس اچھے کوچ یا کوچز نہیں ہیں۔ یا تو ان پر بوجھ بہت زیادہ ہے یا وہ بہت سارے فارمیٹس کھیل رہے ہیں۔ ہمیں اس پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی میری اور پورے بورڈ کی ترجیح ہے۔ ”
جب بنی سے پوچھا گیا کہ کیا گھریلو کھلاڑیوں کو سالانہ کنٹریکٹ دیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ فی الحال اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بنی نے کہاکہ "میرے خیال میں گھریلو کھلاڑیوں کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ ان کے پاس اچھی سہولیات ہیں، وہ اچھی جگہوں پر رہتے ہیں۔ اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
انہوں نے کہاکہ "رنجی ٹرافی کی سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پریمیئر ٹورنامنٹ ہے۔ رنجی کے ساتھ آپ کے پاس دلیپ ٹرافی اور ایرانی کپ ہے۔ کتنے لوگوں کو معلوم تھا کہ ایرانی کپ ایک ماہ پہلے ہوا تھا؟ ہمارا ایک کلچر ہے۔ کرکٹ شائقین کو اس کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔”
واضح رہے کہ بی سی سی آئی کے سابق صدر سورو گنگولی نے 2018 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اس موضوع پر زور دیا تھا، حالانکہ بنی کے لیے یہ ترجیح نہیں ہے۔
بنی سے ایشیا کپ 2023 کے لیے ہندوستان کے دورہ پاکستان پر بھی سوال کیا گیا، جس پر انہوں نے کہا کہ فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔
بی سی سی آئی کے سیکریٹری اور ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے صدر جے شاہ نے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ہندوستانی ٹیم ایشیا کپ 2023 کے لیے پاکستان کا سفر نہیں کرے گی اور ٹورنامنٹ تیسرے مقام پر کھیلا جائے گا۔
بنی نے کہاکہ "یہ بی سی سی آئی کا مطالبہ نہیں ہے۔ ہمیں دورے کے لیے حکومت کی منظوری کی ضرورت ہے۔ چاہے ہم باہر جائیں یا ٹیمیں ملک میں آئیں، ہمیں منظوری کی ضرورت ہے۔ ہم خود فیصلے نہیں کر سکتے۔ ہمیں فیصلہ کے لئے حکومت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔‘‘