کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ بڈگام میں گذشتہ روز دو بھائیوں کی ہلاکت اس حوالہ سے تازہ ترین سانحہ ہے۔ انہیں کس نے مارا، کیوں مارا، کسی کو نہیں معلوم، سرکار کا کہنا ہے کہ جنگجوئوں نے یہ کارنامہ انجام دیا، لیکن کسی جنگجو تنظیم نے اس سفاکیت کی ذمہ داری قبول نہیں کی، فی الحال اس ایک اور واقعہ کو ’نامعلوم‘ کھاتے میں ڈالاگیا ہے، یہ نامعلوم گذشتہ ۳۰؍ سال سے کشمیرمیں سرگرم ہے، یہ نامعلوم کون ہے، کس محلہ ، کس گلی، کس کوچہ، کس کھیت اور کس کھلیان میں اس کا مسکن ہے اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں البتہ اس نامعلوم نے اپنی پیدائش سے لے کر اب تک جتنے بھی واقعات کوجنم دیا ان کا دیگر معاملات سے موازنہ کیاجائے تو اسی نامعلوم کا غلبہ نظرآئے گا۔
دونوں بھائیوں کی نماز جنازہ میں شرکت یا تعزیتی مجلس میں مقامی لوگوں کے جم غفیر کی موجودگی نے واضح پیغام دیا ہے ۔ وہ پیغام یہ ہے کہ ہلاکت جس کسی نے بھی کی، لوگوں کیلئے وہ قابل قبول نہیں اور سفاکیت کا یہ طریقہ کار بحیثیت مجموعی کشمیر مسترد کرتا ہے۔ اگر لوگ ایسے واقعات کو پسند کرتے یا ان کیلئے یہ سفاکیت قابل قبول ہوتی تو وہ تعزیتی مجالس یا جلوس جنازہ میں جم غفیر کی صورت میں اپنی موجودگی کا اعلان نہیں کرتے بلکہ جنازے چند ایک لواحقین اور رشتہ داروں کی شرکت تک محدود رہتے، لیکن ایسا نہیں ہے۔
جلوس جنازہ میں شریک لوگوںنے واضح کیا کہ انہیں نہیں معلوم کس نے مارا، کیوں مارا، ان کا قصور کیا تھا، وہ صرف یہ جانکاری رکھتے ہیں کہ چھوٹا بھائی طالب علم تھا جبکہ بڑھا بھائی پولیس کی نوکری کرکے گھر کی کفالت کا فرض ادا کررہاتھا۔ گھر کی کفالت کا بوجھ اُٹھانا اگر کوئی مجرمانہ عمل ہے، گناہ ہے یا حملہ آوروں کی اصطلاح میں اور کچھ تو پھر جموںوکشمیرکی آبادی کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ فی الحال یہ سوال نہیں کریں گے کہ ملازمت یا اور کسی وجوہ کی آڑ میں ہلاکت کا راستہ اختیار کرکے ’’معلوم اور نامعلوم‘‘ کو کیا حاصل ہورہاہے ، ان کے کس کاز کی تقویت ہورہی ہے ، جوابی سوال یہ بھی کیا جارہاہے کہ اگر کسی کاز کے حوالہ سے کچھ حاصل ہوتا یا کسی ہدف یا مشن کی تکمیل یقینی بنی ہوتی تو گذری تین دہائیاں پھر کافی ہوتی، لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ ۳۲؍ سال کے دوران اس طرح کی سفاکیت سے نہ کسی کاز کی پذیرائی ہوئی اور نہ ہی کچھ خاص حاصل کیا جاسکا۔
البتہ سینکڑوں گھرانے اپنے کفالوں سے محروم ہو گئے، ہزاروں بچے یتیم، اسی تعداد میں بیوائیں ہوئی، اس طرح کشمیر کے معاشرتی لینڈ سکیپ کا جو نقشہ اب تک اُبھر کر سامنے آچکا ہے اس پر محض سرسری نگاہ ڈالنے سے روح بھی لرز کر رہ جاتی ہے جبکہ نفسیاتی توازن بھی بہت حد تک بگڑتا جارہاہے۔ یہ واقعات آبادی کو تقسیم درتقسیم کرکے بہت سارے خانوں میں آباد کررہے ہیں۔ اس انداز فکر اور طرزعمل کا فائدہ کس کو ہورہاہے، بادی النظرمیں انہیں بھی نہیں جوان ہلاکتوں میں ملوث ہیں یا جو پردے کی اوٹ میں رہ کر تاریں ہلارہے ہیں۔
ایسے ہر واقعہ پر کشمیر نشین کم وبیش ہر سیاسی جماعت اور ان سے وابستہ چھوٹا بڑا لیڈر مذمتی بیان جاری کرکے لواحقین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی یہ بیان بازی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ بھی اب ۳۲؍ سال کی عمر سے تجاوز کرچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مذمتی بیان بازی کافی ہے؟ یہ طرزعمل مذمتی بیانات سے اب تک رکانہیں تو آنے والے دنوں میں کیسے توقع رکھی جاسکے کہ یہ سفاکیت رک جائیگی؟ افسوس اور صدمہ کا عالم تو یہ ہے کہ کچھ عنصر ان ہلاکتوں کو جواز عطاکرتے دیکھے اور سنے جارہے ہیں۔ اگر کشمیر نشین سیاسی قیادت اور سیاسی قبیلوں کے دعویدارا پنی اس سرزمین اور اس کی آبادی کے حوالہ سے مخلص ہوتے، کوئی درد رکھتے اور کسی جذبے سے سرشار ہوتے تو وہ ایک زبان ہو کر کم سے کم اس ایک مخصوص اشوع پر میدان میں آکر ایک صف میں خود کو کھڑا کرتے۔ لیکن ایسے معاملات کو بھی الیکشن اور حصول اقتدار کی عینک سے ٹریٹ کرنے کا کینسر انہیں لاحق ہوچکاہے۔ اس کنسر کا کوئی علاج نہیں۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کئی سیاست کار اس منظرنامے کے خالقوں میں شمار کئے جارہے ہیں، کوئی ’حوالہ‘ کے حوالہ سے، کوئی اخلاقی تعاون کے حوالہ سے تو کوئی عملی اعتبار سے!!ان میں سے کچھ نے تو بہ کرکے اپنا راستہ اور قبلہ تبدیل کردیا ہے اوراب خود کو دودھ کا دھلہ کے طور پیش کررہے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان لوگوں کو اپنے اُس مخصوص ماضی اور اُس کے تعلق سے اپنے کردار پر کوئی ندامت نہیں اور نہ کسی شرمندگی کا احساس ہے۔ عموماً کہاجاتا ہے کہ عوام کی یاداشت کمزور نہیں ہوتی لیکن اس مخصوص معاملے میں غالباً یاداشت کمزور ہے۔
چولہ بدلنے والے اور یوٹرن لینے کے خوگر سیاستدانوں کی سیاسی لن ترانیوں کو سند قبولیت عطاکرنے کے جو کچھ بھی الٹے اور منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں کشمیرکی سرزمین سے بہتر اور کوئی مثال نہیں۔ یہ منظرنامہ ، جو روح فرسا بھی ہے اور بے حد تکلیف دہ بھی ہے اس وجہ سے بھی ہے کہ یہاں لوگوں نے اپنی صف میں موجود کسی سیاست دان کا اس کے قول وفعل کی مناسبت سے کبھی سوال نہیں کیا، کبھی کسی مرحلہ پر مزاحمت نہیں کی، نہ محاسبہ کے عمل سے گذارا، بلکہ اندھی شخص پرستی کی تقلید کرکے جذباتی اور لمحاتی فیصلوں پر اپنی مہر تصدیق ثبت کرکے صدیوں کی سزائوں پر محیط کردیا۔
ان سزائوں کی دوسری اہم ترین وجہ یہ ہے کہ کشمیرنشین سیاستدانوں کی اکثریت نے اپنے اپنے سیاسی کیرئیروں کو ’’ملازمتوں‘‘ سے منسلک کردیا۔ ہز ماسٹر س وائس کا کردار نبھاتے اور اداکرتے کرتے وہ اپنے عوام کے وسیع ترحقوق اور مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی راہ سے دستبردار ہوتے گئے، قدم قدم پر عوام کی دیرینہ خواہشات اور تمنائوں کا سودا کرکے اپنے سیاسی محل تعمیر کرتے گئے، کشمیرکی تباہی وبربادی میں ہر ممکن کرداراداکرنے کے بعدا ب بدلتے حالات اور سیاسی منظرنامے میں اپنی سرگرمیوں کو بیان بازیوں اور گرم گفتار یوں تک محدود کرکے اپنا سفر طے کررہے ہیں۔ اگر بندوق کے حوالہ سے ابتدا ہی میں کوئی مشترکہ حکمت عملی اور راستہ اختیارکیا ہوتا تو آج ہر دوسرے تیسرے روز کوئی بے گناہ شہری، کوئی سرکاری ونیم سرکاری ملازم یا کوئی ادنیٰ درجے کا سیاسی کارکن بندوق کی بھینٹ چڑھتا نظرنہ آتا!!