ابھی چند روز قبل یہ مژدہ سنایاگیا کہ حالیہ چند برسو ںکے دوران مزید دو لاکھ بچوں کا جموںوکشمیر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ کو یقینی بنایاگیا ہے جو اس حوالہ سے ایک بہت بڑی پیش رفت بھی ہے اور کامیابی بھی ہے ۔جس کاخیرمقدم کیاجانا چاہئے ۔ کیونکہ تعلیمی شعبہ میں ابھی بہت ساری خامیاں موجود ہیں، جو خامیاں سالہاسال سے موجود ہیں لیکن جنہیں دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے ، نہ حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کی جانب سے اور نہ ہی اساتذہ کی جانب سے ۔
ان خامیوں کی نشاندہی نہ ناممکن ہے اور نہ مشکل البتہ وقت طلب ضرور ہے۔ تعلیم کے حوالہ سے یہ خامیاں نرسری سے پرائمری تک، مڈل سے ہائی اور ہائرسیکنڈری تک اور پھر یونیورسٹی کے تعلق سے اس کے مختلف شعبوں میں سالہاسال قبل سرائیت کرکے آج کی تاریخ میں موجود ہیں۔ ان خامیوں یا کمزوریوں کے بارے میں ذہین، محنتی اور باصلاحیت طلبہ کا اس با ت پر اتفاق ہے کہ جو اساتذہ درس کے شعبوں سے وابستہ ہیں درحقیقت ان خامیوں کے وہ براہ راست ذمہ دار ہیں، ان کے پڑھانے کا طریقہ او راپروچ فرسودہ اور وہی گھسا پٹا پرانا ہے جو بدلتے حالات ، تیز رفتار ترقی، جدید علوم کی وافر دستیابی باالخصوص آج کل کے ڈیجیٹل دور کے حوالہ سے ناقابل قبول اور ناقابل عمل بن چکا ہے لیکن پڑھانے والے حضرات ان تبدیلیوں اور دستیاب نئے وسائل اور معلومات کا نیا ذخیرہ ہونے کے باوجود نہ اپنی خود بدلنے کیلئے تیار ہیں اور نہ اپنی وضع۔
ذہین اور باصلاحیت طلبہ اس مخصوص گروپ کے حامل اساتذہ کے اس طریقے سے عاجز ہیں اور بے چینی اور تذبذب میں مبتلا اپنا تعلیمی سفر پریشان حالت میں جاری رکھ رہے ہیں۔ اس تعلق سے کشمیر یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے وابستہ کچھ اساتذہ کو بطور مثال اور اتمام حجت کے پیش کیا جارہاہے اور ان کے بارے میں کہا جارہاہے کہ طلبہ کو نہیں معلوم کہ یہ اساتذہ صاحبان کہاں سے اور کن کتب سے اپنا سبق پڑھ کرآتے ہیں اور پھر رٹی رٹائے اپروچ کا سہارا لے کر بلیک بورڈ کو مزید سیاہ کرکے چلے جاتے ہیں ۔ جب طلبہ اپنے پاس دستیاب کتب سے رجوع کرتے ہیں تو اساتذہ صاحبان کا رٹا رٹایا درس انہیں ان کتب میں کہیں نہیں ملتا۔ پھر کوئی سوال کرے تو اطمینان بخش جواب دینے کی بجائے طلبہ کی سرزنش کی جاتی ہے انہیں دھتکارا جارہاہے اور مارکس کاٹ کر انہیں ذہنی کرب میں مبتلا کردیاجاتا ہے۔
کشمیر یونیورسٹی کے حوالہ سے یہ صورتحا ل جو زیر تعلیم طلبہ کے لئے کچھ کم المیہ نہیں صرف کسی ایک مخصوص شعبہ تک مخصوص نہیںبلکہ کئی شعبے ہیں جن شعبوں میں زیر تعلیم بچے پریشان حال ہیں ۔ ملکی سطح پر متعدد یونیورسٹیاں ہیں، اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جن میں درس دینے کے طریقے جدید تقاضوں اور سائنٹفک خطوط پر آراستہ کئے گئے ہیں، جدید علوم سے عبارت لٹریچر، کتب اور دوسرا تجزیاتی اور تحقیقاتی مواد نہ صرف خود اساتذہ کو دستیاب ہے اور وہ ان سے استفادہ حاصل کررہے ہیں بلکہ زیر تعلیم بچے بھی مستفید ہورہے ہیں ۔ ان اداروں میں خوب سے خوب تر کی تلاش اور جستجو ایک متواتر اور مسلسل عمل ہے۔اس کے برعکس کشمیر یونیورسٹی کا درس وتدریس کا عمل وہی گھسا پٹا اور فرسودہ ہے جو سالہاسال سے متعارف ہے، جو یونیورسٹی کے مقررہ قوائد ، ضابطوں ، معیارات اور پیمانوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی ، تجدید وترمیم کی اجازت نہیں دے رہاہے،اس حوالہ سے چاہئے پڑھانے والا پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کی یہ پی ایچ ڈی کی ڈگری ذہین اور باصلاحیت طالب علموں کی کسی بھی حوالہ سے تشفی کا باعث نہیں بن پارہی ہے ۔
مختلف شعبوں کے سربراہوں کے بارے میں طلبہ کو گلہ یا شکوہ یہ ہے کہ وہ ان کی سنتے نہیں اور ان کی داد رسی کرتے نہیں۔ وہ چائیں تو مداخلت کرکے منظرنامے میں نمایاں تبدیلیوں اور بدلائو کا موجب بن سکتے ہیں جو زیر تعلیم بچوں کی ذہنی تشفی اور سکون کا باعث بن سکتاہے اور اُن کی پریشانیوں کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے ۔لیکن معلوم نہیں کیوں شعبوں کے سربراہان دادرسی کیلئے دستیاب نہیں؟
بہرحال خامیوں کی ایک ایک کرکے نشاندہی کریں تو فلڈ گیٹ کھل سکتا ہے۔ ہمار امقصد کسی کی تضحیک ،دل آزاری ، توہین نہیں بلکہ زیرتعلیم بچوں کے تعلیمی کیرئیر کو تابناک بنانے اور ان کے مستقبل کو مزید باصلاحیت اور خوشگوار بنانے کی سمت میں ایک مثبت اور تعمیری کردار اداکرنے سے ہے تاکہ سالہاسال سے چلی آرہی خامیوں پر قابو پانے کے راستے ہموارہوتے جائیں اور جو اساتذہ پڑھانے پرمعمور ہیں ان تک یہ مخلصانہ پیغام پہنچایاجاسکے کہ وہ جن کو پڑھارہے ہیں وہ غیرنہیں ، ان کے اپنے ہیں، اسی معاشرے کا ناقابل تنسیخ حصہ ہیں جس معاشرے سے خود ان کا بھی تعلق ہے۔
وہ اپنے آپ کا محاسبہ کریں اور دیانتداری سے جائزہ لیں کہ اگرواقعی ان کا پڑھانے کا طریقہ کار گھسا پٹا فرسودہ پرانا ہے جو بچوں کی موجودہ زمانے کی تعلیم وتربیت کی کسوٹی پر پورا نہیں اُتر پارہاہے توا س میں بدلائو لانے کی کوشش کریں، یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہی بچے ہمارے کل کے معمار ہیں اور ہمارے وارث جائز بھی، یہ کلاسوں میں بیٹھ کر بندھوا مزدوروں کی حیثیت نہیں رکھتے ، بلکہ حصول علم، تجربہ ومشاہدہ اور مہارت حاصل کرنے کی تڑپ اور جستجو ان کا اولین اور بُنیادی ترجیح ہے۔
اس ترجیح کو کسی کی ’انا پرستی‘ کا شکار بناکر قربانی کی بھینٹ نہیں چڑھایاجاسکتاہے۔ وہ سکون قلب اور خوشگوار فضا میں اپنی اس اولین ترجیح کو اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ اس سارے پس منظرمیں کشمیر یونیورسٹی کے اعلیٰ ذمہ دار منتظمین سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اصلاح کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں، زیر تعلیم بچوں کے ساتھ راست بات کرکے ان کے شکوئوں یا درس وتدریس کی راہ میں موجود خامیوں اور مشکلات اگر واقعی کوئی ہے تو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔
لوگوں کو یہ الفاظ دہرانے کا موقع نہ دیں کہ ’’ورنہ کشمیر یونیورسٹی کی کون سی کل سیدھی ہے‘‘۔