سیاست میں شعور ی طور سے بدنیتی، کورپٹ طرزعمل، جاہلانہ انداز فکر وعمل اور سب سے بڑھ کر ’میں یا مائی ہائے وے‘ کا معقولیت سے کہیں زیادہ عمل دخل ہو تو ایسی سیاست ڈونالڈ ٹرمپ، پاکستان کے عمران خان، جنوبی کوریائی لیڈر شپ ایسی ذہنیت کے حامل لوگوں (سیاست دانوں) کو ہی جنم دینے کا موجب بن سکتی ہے۔ اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ عصر حاضر کی ایک ایسی تلخ زمینی حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں بلکہ فی الوقت زمینی سطح پر سیاسی اُفق کے حوالہ سے یہ اور ان کے کئی دوسرے ہم خیال اپنی اپنی بھر پور جسامت اور شبیہ کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔
ایسے سیاستدان جذبات اُکسا کر گمراہ کن بیانیے اختراع کرکے رائے عامہ کی سوچ، طرزعمل اور فکر کو بہت تیزی کے ساتھ اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور جب اس ذہنیت اورطرزعمل کے حامل سیاستدان اپنی سیاست کو کامیابی کی دہلیز پر دستک دیتے محسوس کررہے ہیں تو لوگوں کے جذبات کے ساتھ پھر مختلف طریقوں سے کھلواڑ شروع کردیتے ہیں۔ وہ حکومت اور اداروں کیلئے بھی چیلنج بن جاتے ہیں، وہ ہجومی تشدد کو بھڑکاتے ہی نہیں بلکہ سرپرستی بھی کررہے ہیں اور ڈائریکشن بھی دیتے نظرآرہے ہیںکہ سیاسی مخالفین کے ساتھ کس طرح سے سڑکوں ،گلی کوچوں، بازاروں، مذہبی مقامات، جلسے جلوسوں وغیرہ میں پیش آنا ہے ۔ ان سبھی مقاصد کو اپنے نظریات، پسند اور ذہنیت کی تسکین وعمل آوری کو ہراعتبار سے یقینی بنانے کیلئے سوشل میڈیا سے وابستہ کرایہ داروں کی فوج کو میدان میں جھونک کر معاشرتی اور ملکی سطح پر انار کی کو جنم دینے کا کرداراداکرتے ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اقتدار سے بے دخل ہوتے ہوتے یہی فسطائی راستہ اختیار کیا، اپنے مسلح اور غیر مسلح حامیوں کے جذبات کو بھڑکا کراور انہیں شہہ دے کر وائٹ ہائوس پر چڑھائی کی ترغیب دی، پھر اس چڑھائی نے جس بدترین اور اندوہناک صورتحال کو جنم دیا دُنیا ٹیلی ویژن نشریات کی وساطت سے اُس نسل پرستانہ یلغار اور اُس یلغار کی زدمیں آئے لوگوں باالخصوص قانون دانوں، انتظامیہ سے وابستہ عہدیداروں اور دوسرے لوگوں کی آہ وزاری اور چیخ وپکار کا لائیو مشاہدہ کرتی رہی۔ لیکن امریکی قانون اور کچھ سیاسی ومعاشرتی اقدارایسے ہیں کہ کوئی قانون شکن ان سے دامن نہیں بچا سکتا۔ فی الوقت ٹرمپ قانونی اور تادیبی کارروائی اور تحقیقاتی مراحل سے گذررہاہے۔
ٹرمپ کی سیاست، انداز فکر اور طرزعمل کو اپنے لئے مشعل راہ بناکر پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اسی نقش قدم کو اپنی سیاست کا اوڑھنا بھچونا بنالیاہے۔ گالی گلوچ ، کردار کشی ، طعنہ زنی، جھوٹ، کذب بیانی، یوٹرنوں، دھونس دبائو اور دھمکیوں، ہجومی تشدد ، عدالتوں اور ججوں کی توہین، آئینی وغیر آئینی اداروں کی تضحیک روز کا معمول بنایاگیا ہے۔
پاکستان میں دانشور طبقہ، حساس شہری، میڈیا سے وابستہ محتاط مگر ذمہ دار صحافیوں کا ماننا ہے کہ عمران خان نے اپنی اس سیاست اور اختراعی سازشوں پر مبنی بیانیے دہرا دہرا کر ملک کی نوجوان نسل کو ذہنی اور فکری طور سے اس قدر آلودہ بناکر اپنی سیاست اور ہجومی تشدد کے راستے پر گامزن کرنے میں اتنی کامیابی حاصل کرلی ہے کہ پاکستان کی اگلی نسل کے جوان اور شعوریت کی دہلیز تک پہنچنے تک عمران اور اُس کے جاہلانہ اور فتنہ پر ور سیاست کا ہی دور دورہ رہے گا۔
اپوزیشن جماعتوں پرمشتمل شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت عمران کی واضح بدعنوانیوں ، دھمکیوں، کردار کشی، اداروں کی توہین مسلسل کے ارتکاب کے باوجود کچھ بگاڑ نہیں پارہی ہے جبکہ حوصلہ پاکر اب عمران پاکستان کی اُس آرمی،جس نے اس کی سیاسی گو دمیں پرورش کی، اقتدار میں لانے کیلئے منتخبہ حکومت کوگراکر اس کی قیادت کو عدالتوں کی وساطت سے نااہل قرار دلوایا، دوسری جماعتوں سے وابستہ ارکان کومنتخب قرار دینے کیلئے فراڑ الیکشن کروائے، میڈیا سے وابستہ ایک بڑے حصے کو خریدار، سوشل میڈیا کے حوالہ سے کرایہ داروں کی فوج اس کے لئے بھرتی کی، اسی آرمی کو جانور ،نیوٹرل ، ایکس وائی، میر جعفر وصادق قرار دے کر پاکستانی رائے عامہ کو ان کے خلاف بھڑکانے کا مسلسل جرم کا ارتکاب کررہاہے۔
درحقیقت قصور عمران خان یا پاکستان کے دوسرے سیاسی لیڈروں کا نہیں، قصور وار آرمی ہے جس نے اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات کے تحفظ کیلئے سیاسی وغیر سیاسی دکانیں سجا رکھی ہیں، جس نے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے مارشل لاء نافذ کئے، حکومتوں کا تختہ الٹے لٹکاکرخو د حکمرانی کی، اندرونی اور خارجی پالیسیوں کی ترتیب کی، پاکستان کی سیاست، اقتدار اور انتظامی معاملات میں اپنے لئے حصہ داری حاصل کی،ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھنے ہیں اور کہاں کس ملک میں کس طرح کی مداخلت ، دراندازی اور ان ملکوں کے استحکام کو متزلزل کن راستوں کو اختیار کرکے کرنا ہے اسی ادارے کی مرہون منت ہے، نتیجہ یہ کہ آج پاکستان جس مقام اور انارکی کی سطح کو عبور کررہاہے اس کیلئے ذمہ دار کمزور بیساکھیوں کے سہارے کورپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں کاوہ طبقہ ہے جو صر ف اور صرف آرمی کی آشیرواد کی بدولت پاکستان کی سیاسی اُفق پرزندہ رہا اور مختلف طریقوں سے اپنے جلوے بکھیررہاہے۔
اس کے برعکس ہندوستان، جو پاکستان کا قریب ترین ہمسایہ ہے، کا سیاسی لینڈ سکیپ ، آرمی کا کردار، عدلیہ کی آزادانہ حیثیت پاکستان کے سیاستدانوں کیلئے بھی اور آرمی کے لئے بھی کسی مشعل راہ سے کم نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ لیاقت علی خان سے اب تک جتنے بھی پاکستانی سیاستدان اقتدار اورسیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے افق پر جلوہ گر ہوتے رہے انہوںنے ذاتی مفادات، فکری میلانات، طبقاتی تعصبات کو ہی پاکستان کی بقاء اور سلامتی کا ضامن سمجھا، نتیجہ جو کچھ بھی ہے ، وہ دُنیا کے سامنے ہے۔ سیاست میں گالی گلوچ اور اخلاقی انحطاط کا جو زبردست مظاہرہ فی الوقت سڑکوں پر ہورہاہے اس کے ہوتے پاکستان اپنے لئے ’اسلامی جمہوریہ‘ کہلانے کا مستحق نہیں رہا، فی الوقت ٹرمپ کی نسل پرستانہ روح عمران میں سرائیت کرچکی ہے، زبان صرف عمران کی ہے ان کا باقی سب کچھ امپورٹڈ ہے جس کو امپورٹ کرنے کیلئے سرمایہ کاری گولڈسمتھ کی ہے۔
پاکستا ن کے اسی سیاسی لینڈ سکیپ ، انارکی اور رسہ کشی کا قریب سے تجزیہ کرنے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اس ملک کے بارے میں کہا کہ ’’ یہ دُنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہوسکتاہے‘‘ یہی اس ملک کی زمینی حقیقت ہے ۔