پولنگ ضاطہ اخلاق میں تبدیلیاں لانے کیلئے الیکشن کمیشن نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں اور تمام جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ چنائو منشور میں کئے جارہے وعدوں کے ایفاء کے تعلق سے فنڈز کی دستیابی کو کیسے اور کن طریقوں سے یقینی بناسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا یہ مشورہ بظاہر کچھ ریاستوں کی جانب سے مراعات دینے، مفت خدمات انجام دینے یا دوسرے طریقوں سے راحت رسانی کے وعدے کرنے کے اعلانات اور حکومت باالخصوص وزیراعظم نریندرمودی کی جانب سے ان مراعات اور وعدوں جنہیں انہوںنے ’ریودی‘ کا نام دیا ہے کی مخالفت یا ناپسندیدگی کے اظہار کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا سوالنامہ اچھا بھی ہے اور صحت مند بھی، لیکن اہم سوال یہی ہے کہ آیا کیاہندوستان ایسے ملک جہاں صدیوں سے ذات، پات ، رنگ ، نسل ، مذہب ، لسانیات، فرقہ بندی ،علاقہ پرستی ،اونچ نیچ آبادی میںزمرہ بندی اور دوسرے بہت سارے معاملات اور مصلحتیں خود سیاسی جماعتوں اور اس حوالہ سے برسراقتدار آتی رہی جماعتوں کیلئے حصول اقتدا ر اور پھر تحفظ اقتدار کی سمت میں ترجیحات میں شامل ہیںالیکشن کمیشن کے مشورے پر عمل درآمد کرکے اس قسم کی تجاویز کے آگے سر خم کرئیگی اور سرخم کرکے اپنے ضابطہ اخلاق بصورت چنائو منشوروں میںاحتیاط سے کام لینگی، بظاہر یہ ممکن نظرنہیں آرہاہے۔
لیکن اس تعلق سے جڑا دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جبکہ روزگار اور آمدن کے ذرائع اور وسائل روز بروز کم ہوکر پڑھے لکھے اور غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی آبادی میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتاجارہاہے اور اس مخصوص تناظرمیں آبادی کے یہ طبقے تقریباً کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں کیلئے مراعات اور مختلف نوعیت کی مالی وجنسی رعایتیں کوئی احسان نہیں بلکہ وہ ان کے صحیح حقدار ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تبدیلی لانے کے حوالہ سے تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں کیا آبادی کے ان طبقوں کو مزید کئی الجھنوں اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟
اصل مسئلہ ، جو حقیقت میں ان سارے معاملات کی ’جڑاور ماں‘ کا درجہ رکھتی ہیں کو آزادی کے ساتھ ہی سنجیدگی، زمینی حقائق ،وسیع التناظر اور حقیقت پسندانہ نظریے اور عمل آوری کے حوالہ سے ایڈریس کیاگیا ہوتا تو آج ہندوستان ذات پات ، مذہب ،نظریے ،رنگ نسل وغیرہ کی بُنیادوں اور خطوط پر نہ منقسم ہوتا اور نہ اس تقسیم کی بُنیاد پر سیاسی جماعتیں سیاسی دکانیں سجاکر لوگوں کے جذبات کا استحصال کرنے کی جرأت کرتی۔ ملک کی سیاسی قیادت سے وابستہ جن لیڈروں نے آئین کی ترتیب وتزئین کی نے ان اہم سوالات کو سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس نہیں کیا بلکہ تلخ سچ تو یہ ہے کہ ہر ایک آئین ساز شخصیت نے مصلحتوں ہی کو ترجیح دی۔ نتیجہ یہ کہ آزادی کے گذرے ۷۵؍سالوں میں ذات پات رنگ نسل لسانیات،قبیلے او رفرقوں کی سیاست کا دیو حد سے زیادہ طاقتور بن کر اُبھر چکاہے، جس دیو کو اب قابو کرنا ممکن نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں ملک کے طو ل وارض میں تمام تر سیاسی نظریات کا محور ومرکز انہی خطوط پرآراستہ ہوچکاہے۔
الیکشن کمیشن کا یہ سوال کہ سیاسی جماعتیں اپنے چنائو منشوروں میں جن مفت کی مراعات اور رعایتوں کے وعدے کررہی ہیں ان کی تکمیل کیلئے یہ جماعتیں یہ بھی واضح کردیں ان کے پاس مالیات کا بندوبست کیا ہے۔ کمیشن کے اس سوال کا معمولی سا اطمینان بخش جواب کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہوسکتا۔ مثلاًجموں وکشمیرکے حوالہ سے بات کی جائے تو یہاں بھی چند ایک جماعتوں نے اعلان کررکھا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہیں تو وہ صارفین کو ۳۰۰۔۵۰۰؍ یونٹ بجلی مفت فراہم کرے گی۔ تقریباً ۶۰؍لاکھ کی آبادی کیلئے چھ ماہ تک کیلئے ۵۰۰؍ اور دوسرے چھ ماہ تک کیلئے ۳۰۰؍ اور اسی طرح ۸۰؍لاکھ کی آبادی کیلئے پہلے چھ ماہ تک کیلئے ۳۰۰؍ اور دوسرے چھ ماہ تک کیلئے ۵۰۰؍یونٹ مفت بجلی کی فراہمی پرآنے والے اخراجات کروڑوں میں آتے ہیں، جموں وکشمیر کے مالی وسائل بھی محدود ہیں اور محدود وسائل کے ہوتے اخراجات کی تکمیل کیلئے مرکزی امداد پر حد سے زیادہ انحصار ہے، مفت کی مراعات کی پیشکش کرنے والی جماعتیں تقریباً ایک سال سے یہ اعلانات کررہی ہیں لیکن سوالوں پر سوالات کے باوجود آج تک وہ یہ جواب نہیںدے پائی کہ وسائل کہاں سے آئیں گے یہ تو محض ایک مثال ہے ورنہ اعلانات اور وعدوں کے تعلق سے فہرست لمبی ہے۔
الیکشن کمیشن اگر واقعی الیکشن پراسیس میں کچھ اصلاحات کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ شفافیت کا عمل دخل ہو تو الیکشن عمل کے تعلق سے دوسرے کئی شعبوں میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ الیکشن عمل کے تقریباً پہلے تین مہینے مختلف کاموں کی عمل آوری کے حوالہ پابندیوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مختلف میڈیا گھرانے غالباً لفافہ صحافت کے زیر اثر ووٹنگ عمل سے قبل کئی ہفتوں ،مہینوںتک تحقیقاتی صحافت کی آڑ لے کر پیش گویئوں کی وساطت سے رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہر اُمیدوار کیلئے اخراجات کی حد تو مقرر کررکھی ہے لیکن کوئی اُمیدوار اس حد کو کسی خاطر میںنہ لاکر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا مرتکب ہورہاہے، منتخب ہونے پر ایسے اُمیدواروں کو بحیثیت رکن اسمبلی ؍پارلیمنٹ کے آمدن کے وسائل کتنے دستیاب رہینگے وہ تو معلوم ہے لیکن وہ جو کروڑوں کی سرمایہ کاری کرچکاہے اس کی واپسی یا بھر پائی کیلئے وہ کون سے راستے اختیار کررہاہے الیکشن کمیشن اس سوال کو آج تک ایڈریس نہیں کرپایا ہے۔
اسی طرح عوامی نمائندگان ایکٹ میں کئی اعتبار سے تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ سیاسی مصلحتوں ، اقتدار کی تڑپ اور مرکز اقتدار کا قرب حاصل کرکے دبدبہ قائم کرنے کیلئے’’ آیا رام گیا رام‘‘اور پھر اس مخصوص دل بدلی کاراستہ اختیار کرکے برسراقتدار حکومتوں کا تختہ الٹا کر ’لوٹوں‘ پر مشتمل نئی حکومت کی تشکیل کو سیاسی منظرنامہ میں غلط یا گناہ تو تصور نہیںکیاجارہاہے لیکن لوگ اس طرز عمل اور اس طرز عمل کی سرپرستی کرنے والوں کو اخلاقی پستیوں کا علمبردار سمجھاجارہاہے ۔ جبکہ اس طریقہ کار کو عوام کے اعتماد اور منڈیٹ کی پامالی کی انتہا بھی!
ان سبھی اشوز کو سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کرنے میں الیکشن کمیشن صریح ناکام رہا ہے۔