یوکرین کے خلاف روس کی فوجی جارحیت اب ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے۔ روس نے یوکرین کے چار صوبوں کو فوجی جارحیت کے بل بوتے پر قبضہ کرکے انہیں نام نہاد ریفرنڈم کی آڑمیں روس میں شامل کرلیا ہے۔ اپنے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ اور البانیہ کی مشترکہ قرارداد کو ویٹو کرکے ناکام بناکر اپنی ناجائزجارحیت کو بھی شرمسار کردیا ہے۔
روس کی یوکرین پر فوج کشی کا لب لباب یہ ہے کہ غالباً دُنیا اُس دورمیں واپس جارہاہے جس دور کو سادہ زبان میں ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ سے منسوب کیاجاتا تھا۔ روس نے ایسا کیوں کیا، یہ سوال ہم نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا آزاد اور خودمختار ملکوں کے خلاف فوجی جارحیت کے بل بوتے پر ان کی جغرافیائی اور علاقائی وحدت اور سالمیت کو پارہ پارہ کیاجاسکتاہے جبکہ پارہ پارہ کرنے والے سبھی ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں جس کے چارٹر میں یہ بات واضح ہے اور دو ٹوک الفاظ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ملکوں کی علاقائی ،جغرافیائی وحدت اور سالمیت کا احترام اور تحفظ ہر رکن ملک کے لئے لازم ہے جبکہ خود اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک کی کسی بھی حوالہ سے تقسیم یا کسی حصے کی علیحدگی کی اجازت نہیں دے سکتی ۔
عصر حاضر کی اس جارحیت کا آغاز سرد جنگ سے قبل اور مابعد درحقیقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی۔ ویت نام، کمبوڈیا، عراق، افغانستان اس فہرست میں سرفہرست رہے جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے قتل وغارت گری کا بازا رگرم کیا، لاکھوںشہریوں اور فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا، بستیوں کی بستیوںکو کھنڈرات میں تبدیل کیا، ان ملکوں کی حکومتی اور سیاسی قیادتوں کو بھرپور سفاکیت کے ساتھ قتل کرڈالا لیکن اس جارحیت اور ان ملکوں کے خلاف امریکہ کی تہذیبی سفاکیت کے باوجود امریکہ اور اس کے سبھی اتحادیوں کو پے درپے شکستوں سے دو چار ہونا پڑا، اور اپنے ناجائز قبضوں اور جارحیت سے دستبردار ہونا پڑا۔
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت اور چارصوبوں کو الگ کرکے اپنے ساتھ ضم کرنے کے تازہ ترین اقدام کو اسی مخصوص تناظرمیں دیکھاجاسکتا ہے جبکہ روس بھی افغانستان کے حوالہ سے شکست سے دو چار ہوکر افغانستان سے دم دباکر بھاگ کھڑا ہونے پر مجبور ہوا تھا۔ اب یوکرین کے چار صوبوں پر کب تک یہ اپنا جابرانہ کنٹرول قائم رکھنے میںکامیاب ہوسکتا ہے یہ وقت کی بات ہے لیکن نتیجہ حتمی طور سے نظروں سے اوجھل نہیں۔
یوکرین میںروس کی شکست کی پہلی اینٹ رکھدی گئی ہے۔ قرارداد کی حمایت میں دس رکن ممالک نے ووٹ ڈالے، ہندوستان سمیت چار ممالک نے ووٹ نہیں ڈالے جبکہ خود روس نے حق تنسیخ (ویٹو) کا استعمال کرکے اپنی شرمناک جارحیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا یہ مخصوص اجلاس اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے میٹنگ کے اہتمام، آپسی بحث ومباحثہ اور اختتامی کلمات تک محدود رہا، جبکہ قرارداد کے مسترد ہونے کے ساتھ ہی اجلا س نے بھی دم توڑ دیا۔ اسطرح اس معاملے پر بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر اپنی عدم افادیت، غیر موثریت، غیر فعالیت اور سب سے بڑھ کر اپنی مفلوجیت کا ایک اور بین ثبوت پیش کیا وہیں اس سوال کو پھر سے جنم دیا کہ کچھ طاقتوں اور ملکوں کی اس لونڈی کو کیوں نہ لیگ آف نیشنز کے طرز پر اُسی حشر سے دوچار کیا جائے جس حشر سے ماضی میں لیگ دوچار ہوئی تھی۔اقوام متحدہ اوراس کی سلامتی کونسل کا وجود ہی اب انصاف پسند اور حساس لوگوں اور قوموں کو کھٹک رہا ہے کیونکہ یہ عالمی ادارہ کسی بھی تنازعہ کسی بھی معاملہ اور کسی بھی جارحیت چاہئے وہ فوجی نوعیت کی ہو، تہذیبی ہو، فکری ہو، ہجومی تشدد اور نفرت اور عقیدوں اور نظریات پر نظریاتی حملوں سے ہو کے خلاف کوئی موثر اقدام کرنے میں غیر موثر بلکہ ناکام ہی ثابت ہو رہی ہے۔ پانچ بڑے ملک جو چاہتے ہیں وہ کر گذرتے ہیں۔
اس حوالہ سے ایک اور مثال گذشتہ دنوں اس وقت چین کی وساطت سے سامنے آئی جب پاکستان نژاد چند دہشت گردوں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد کو ویٹو کرکے موخر کردیا۔ ہر اُس معاملے جس کا تعلق پانچ بڑے ملکوں کے کسی بھی نظریے ، سیاست اور مفاد سے ہے پرآنکھیں بند کرکے اور بلاکسی معقول جواز کے ویٹو کا استعمال یہ واضح کررہاہے کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل پر درحقیقت انہی صرف پانچ بڑی طاقتوں کا قبضہ ناجائز ہے اور یہی ممالک نہیں چاہتے کہ ویٹو کا حق اور کچھ بڑے اور اہل ممالک کی جھولیوں کی زینت بن جائے۔
بہرحال سلامتی کونسل میں اب جبکہ روس کی جارحیت کے خلاف قرارداد کو خود روس نے ویٹو کرکے ناکام بنادیاہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکوں کی سطح پر روسی جارحیت کے خلاف رائے عامہ منظم کی جائے، روس پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈالاجائے، تعلقات کو محدود کردیاجائے، اس کے سمندری ،زمینی اور ہوائی راستوں کو مسدود کیاجائے، سفارتی محاذوں پر رو س کو الگ تھلگ کردیا جائے تاکہ وہ گھٹنے ٹیک کر مذاکرات کی میز پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوجائے۔
جنگ مسائل کا حل نہیں ، سفارت کاری، مذاکراتی عمل اور درپردہ رابطے اور معقول حد تک سیاسی اور معاشی دبائو کچھ ایک بہترین اور قابل عمل آپشنز ہیں جنہیںکسی جارحہ کے خلاف بطور موثر ہتھیار کے بروئے کار لایاجاسکتاہے ان اقدامات کے حوالہ سے خود روس کے اندر حالات موافق ہیں، روسی عوام کی غالب اکثریت یوکرین کے خلاف جاری جارحیت اور فوج کشی کو مسترد کررہے ہیں بلکہ ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک کا بھی رُخ کررہے ہیں۔ اندرونی بلکہ گھریلو محاذ پر یہ منظرنامہ روس کی قیادت کیلئے ایک چیلنج بھی ہے ، ناپسندیدگی کا برملا اظہار بھی اور روسی قیادت کے واضح پیغام بھی ہے کہ اب بس کرو، بہت ہوچکاہے ۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اپنے عوام کے اس پیغام کو کس حد تک سمجھ رہے ہیںیا نظرانداز کررہے ہیں، کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔