حصول اقتدار اور پھر تحفظ اقتدار کی چاہت جب سیاستدان کا متاع زندگی ہو اور ترجیحات کے حوالہ سے فہرست میں سب سے اوپر ہو تو عوام کے وسیع ترمفادات ، فوری قلیل المدتی اور طویل المدتی حقوق اور تحفظات کا کیجولٹی بن جانا موجب حیرانی نہیں۔
بے شک جمہوری طرزسیٹ اپ میں حکومت کی تشکیل اور جواب دہ انتظامیہ لازمی ہے لیکن اگر اُس سیٹ اپ کو صر ف اور صرف حصول اقتدار اور پھر تحفظ اقتدار کی دوڑ تک محدود رکھاجائے اور لوگوں کو درپیش مسائل اور معاملات کو یا تو حاشیہ پر رکھاجائے یا ثانوی درجہ دیاجائے توسسٹم جمہوری طرز سے عبارت نہیں بلکہ الیکٹورل آمریت کے راستے پر گامزن ہونا کہلاتا ہے ۔ لیکن اس تعلق سے سیاستدان اکیلے ذمہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ بحیثیت ووٹر زیادہ ذمہ دار ہیں جو سب کچھ جانتے ،د یکھتے اور محسوس کرنے کے باوجود اندھے بھگت یا دوسرے الفاظ میں شخص پرست بن کر ایسے سیاستدان کے حق میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے ایسے سیاستدان ، جس کی تمام تر سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی نظریات ابن الوقتی اور چاپلوسی سے عبارت ہے ، کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
کشمیر کے موجودہ سیاسی تناظرمیں بات کی جائے تو کشمیرنشین ہر ایک سیاستدان اوران سے وابستہ جماعتیں صرف اور صرف الیکشن کرانے کی راگنی کاراگ الاپنے میںاپنی تمام تر توانائی اور آواز کو صرف کررہی ہیں۔ ہرایک کا رونا یہی ہے کہ الیکشن کیوں نہیں کرائے جارہے ہیں ، اُٹھتے، بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، صبح وشام صرف الیکشن کی راگنی!! کوئی سیاستدان عوام کو درپیش گوناگوں معاملات اور مسائل پر بات نہیں کررہاہے، سیاست کے سوا اور بھی زمانے میںمسائل اور معاملات ہیں،لوگ معاشرتی سطح پر بھی الجھنوں، پریشانیوں اور تکالیف سے جھوج رہے ہیں، صحیح معنوں میں سیاستدان سیاستدان ہی نہیں لوگوں کاراہ نما بھی ہوتا ہے لیکن کشمیر کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو بھی سیاستدان سیاسی اُفق پر جلوہ گر ہوتا رہا وہ صرف سیاستدان ہی رہا، کبھی راہ نما نہیں بن پایا،ان سیاستدانوں نے بحیثیت مجموعی عوام کے اعتماد اور بھروسہ کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر اور جذباتی نعرے بلندکرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کاہی کردارادا کیا بلکہ کچھ کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ انہوںنے راہ زنوں کا روپ بھی دھارن کرکے اپنے لئے محلات تعمیر کئے۔
پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا مرحوم بخشی غلام محمد ، جو دہلی کی آشیرواد اور چھتر چھایا میں ۱۱؍ سال تک جموںوکشمیر کا وزیراعظم رہا، کوئی خاندانی رئیس تھا، جواب نفی میں ہے، کیا انڈا بھون کے خالق سید میر قاسم پشتنی رئیس تھا، کیا شیخ محمدعبداللہ کو اپنے باپ دادا کی خاندانی وراثت ورثے میں ملی تھی، کیا بجبہاڑہ کا مفتی محمدسعید کسی امیر زادہ خاندان سے تھا، ان سب سے جڑے دوسرے چھوٹے بڑے اپنے سرپرست لیڈروں کی سرپرستی میں اور حوصلہ پاکر محلات تعمیر کرتے رہے ، چونکہ دہلی کو زیر وکرپشن اور زیر و ٹالرنس راس نہیںآتی تھی اور راہ میںاُن کی اپنی اندھی سیاسی مصلحتیں حائل تھی لہٰذا سیاستدانوں کی سبھی ٹولیاں عیش ونشاط کی زندگیاں بسرکرتی رہی ۔
کشمیری سادہ لوح رہے، اندھا اعتماد اور سیاستدانوں کی ہر غلط اور صحیح بات اور نعرے پر آنکھیں بند کرکے لبیک کہنے کی خوگریت نے ہی کشمیر کو زندگی کے ہر شعبے میں تباہی سے ہم کنار کردیا، کشمیر نشین وہ کچھ سیاستدان جو کل تک مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ مرکز ِاقتدار کے نزدیک رہے یا خود وزارتی عہدوں پر بھی متمکن رہے آج کچھ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنی نئی وابستگی کے حاشیہ پر کچھ ایسے بیانات کے مزائل داغنے میں مصروف ہیں جو ان کے ماضی کے کردار سے بالکل متصادم اور ضد ہے۔ ان میں سے کئی سیاستدان وہ ہیں جو ماضی قریب میں عسکریت کی حوصلہ افزائی کرتے رہے یا براہ راست خود بھی عسکریت سے وابستہ رہے ہیں لیکن آج دوسرا چولہ زیب تن کرکے کچھ اور ہی بولی بول رہے ہیں۔
کوئی سیاستدان مذہب کے نام پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہاہے، کوئی طبقاتی، لسانی اور فرقہ بندی کے نام پر دندناتا نظرآرہا ہے،کوئی علاقہ پرستی اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلاکر اپناسیاسی الوسیدھا کرنے کے راستے پر گامزن ہے تو کوئی جموںوکشمیر کی جغرافیائی وحدت، سالمیت کے تحفظ کیلئے کمربستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ زمرہ بندی،علاقہ پرستی ،طبقاتی عصبیت میںسیاستدان اور ان کے پیروکار اپنے اپنے زمروں پر مبنی دکانیں سجانے کے مشن پر ہیں۔ اتحاد پارہ پارہ کردیاگیاہے اور ساتھ ہی عوامی سطح پر یگانگت ، رواداری اور بھائی چارا کی تمام تر فضا کو مکدر بنایاجارہاہے۔
بہرکیف بحیثیت مجموعی حالات ومعاملات کاتجزیہ کرنے بیٹھ جائیں تو بہت ساری تلخ حقیقتیں آشکارا ہوجائینگی، حساس اور ذمہ دار شہریوں کی نفسیات کو ٹھیس پہنچ جانے کا خدشتہ لاحق ہوگا، مایوسیت کی ایک نئی فضا مسلط ہوجائیگی، بہتر اور موزوں یہی ہے کہ لوگ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے آئے روز کو ٹ بدلنے والے سیاستدانوں کو ان کے اپنے ہی پیروں تلے کی زمین چاٹنے پر مجبور کیاجائے ، تاکہ اُس تباہی وبربادی سے واپسی کا راستہ ہموار ہوسکے جس تباہی وبربادی سے سیاستدان کشمیرکو ہم کنار کرچکے ہیں۔
بدلتے حالات، بدلتے منظرنامے اور بدلتی سوچ کا تقاضہ یہ ہے کہ لوگ آپس میں متحد ہو جائیںاور نیا جموں وکشمیرکی تعمیر، ترقی اور خوشحالی کی سمت میں اپنا کرداراداکریں۔