انتظامیہ کے کئی شعبے ایسے ہیں جن کا تعلق بلواسط یا بلاواسطہ عوام کی روزمرہ معمولات اور زندگی سے ہے۔ یہ محکمے ایک عرصہ سے اصلاحات کے منتظرہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام بحیثیت مجموعی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ یہ وہ ادارے ہیں جن کے بارے میں زبان زدہ یہ تاثر ہے کہ یہ محکمے کورپشن اور بدعنوانیوں میں ڈبکیاں لگانے کے ہی ماہر نہیں ہیںبلکہ بالائی آمدن کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے نت نئے حربے اور راستے بھی تلاش کرنے میں پیشہ ورانہ مہارت رکھتے ہیں۔
ان چندمحکموں میںمحکمہ مال بھی شامل ہے۔اس مخصوص محکمہ کی بحیثیت مجموعی کارکردگی اور عوامی سطح پر پائے جارہے عمومی تاثرات کے پیچھے فرسودہ قوانین اور فرسودہ طریقہ کار کارفرما ہے جن پر عمل آوری کے حوالہ سے عوام کو بے حد مشکلات اور گونا گوں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے، غالباً یہی وہ خاص وجہ ہے کہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے ان فرسودہ قوانین کو منسوخ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے ان کی جگہ زندگی میں آسانی، نظم ونسق میں آسانی، اور محکمہ کی کارکردگی میںبہتری لانے کی سمت میں ریگولیٹری نظام متعارف کرانے کی ہدایت دی ہے۔
اگر چہ گذشتہ تین برسوں کے دوران اصلاحات اور سدھار کی ضمن میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن یہ بہتری ابھی حرف آخر قرارنہیں دی جاسکتی ہے۔ حکومتی سطح پر لینڈ ریکارڈس کی تدوین، نظم ونسق ، جمع بندی، اراضی اور اس سے متعلق معاملات کی ڈیجٹائزیشن ایسے امورات میںبہتری لانے کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو ان پر یشانیوںسے چھٹکارا دلایاجاسکے جن کا سامنا انہیں اب کئی ایک دہائیوں بلکہ صدیوں سے ہے ۔ عوامی سطح پر ان اصلاحات کا خیر مقدم کیاجارہاہے لیکن یہ خواہش بھی ہے کہ سدھار اور اصلاحات کو اس سطح تک لے جایاجائے کہ جہاںپہنچ کر شدید سے شدید طوفان اور کوئی بھی خارجی دبائو اس میں شگاف ڈالنے میںکامیاب نہ ہوسکے۔
سابق حکومتوں نے بے شک کچھ قوانین وضع کرکے نافذ کئے، ان میں زرعی اصلاحات سے متعلق ایکٹ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ا س ایکٹ کی روشنی میں کسی بھی قابل کاشت اراضی کی ہیت تبدیل کرنے پر پابندی تھی۔ لیکن اس قانون اور پابندی کی دھجیاں ہوا میں بکھیرتے ہوئے محکمہ مال نے کئی راستے تلاش کئے، آبی اول کی ہیت تبدیل کرکے اور متعلقہ لٹھ میں قلم زنی کرکے اراضی کی خرید وفروخت کے نئے راستے اختراع کئے۔ اس طریقہ کار کاسب سے زیادہ فائدہ اثرورسوخ رکھنے والوں ، سیاسی جماعتوں سے وابستہ ورکروں، عہدیداروں ، وقت کے کھڈ پنچوں اور ان کے دم چھلے اُتھاتے رہے۔
چنانچہ اراضی کی اس خرید وفروخت اور زمین کی ہیت میںتبدیلی کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے پٹواریوں کے ایک مخصوس گروپ کو ’’ وی آئی پی پٹواریوں‘‘ کا خطاب عطاکیا۔یہ پٹواری اپنی زندگیوں کے آخری ایام تک اسی خطاب سے محذوظ ہوتے رہے۔بحیثیت مجموعی وی آئی پی پٹواریوں کے وہ اعلیٰ بیروکریٹوں، سیاستدانوں،اثر ورسوخ رکھنے والوں اور کاروباریوں سے عوض میں کیاکچھ حاصل کرتے رہے وہ الگ کہانیاں ہیں۔
اراضیوں کی خرید وفروخت کے حوالہ سے کچھ بُنیادی لوازمات کی تکمیل ناگزیر ہے ۔ لیکن ان بُنیادی لوازمات کی تکمیل اور حصول کیلئے خوردنی اشیاء ، ساگ سبزیوں، پھل پھول اور دیگر چیزوں کی طرح ایک مقرر نرخ نامہ کے مطابق نقد نذرانے وصول کئے جاتے رہے ہیں اور فی الوقت بھی یہ نرخ نامہ کچھ ایک تبدیلوں کے ساتھ رائج ہے ۔ انتقال اراضی کے اندراج کیلئے پانچ سے دس ہزار روپے، زمین قابل کاشت نہیں کی سنداجراء کرنے کیلئے ۲۰؍ ہزار روپے مقرر ، اسی طرح دوسری لوازمات کی تکمیل کیلئے بھی نرخ مقرر ہیں۔
اس سے انکار نہیں کہ محکمہ مال سے وابستہ ملازمین اسی انداز فکر اور اپروچ کے حامل ہیں، محکمہ میں کام کرنے والے ملازمین کی غالب اکثریت دیانتداری اور خلوص کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں البتہ پٹواریوں اور گرداوروںکی ایک مخصوص اقلیت ہر کام اور لوازم کی تکمیل کیلئے اپنے ہاتھ لمبے کررہے ہیں جو اس محکمہ کی بدنامی کاسب سے بڑا موجب بھی ہے اور شرمندگی کا باعث بھی۔ا س وجہ سے محکمہ کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور عوام کومشکلات اور پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑرہاہے۔
لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی یہ ہدایت کہ درپیش مسائل اور چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے قابل عمل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اس سارے تناظراور محکمہ مال کی مجموعی کارکردگی اور اپروچ کے تناظرمیں بروقت بھی ہے اور ورک کلچر کا تقاضہ بھی ہے ۔لوگ بدعنوان اور کورپٹ طرزعمل اور دفتری گھس گھس ، چاہئے وہ کسی بھی محکمہ اور اس میں کام کرنے والے آفیسروں اور ملازمین کا وطیرۂ ہو، بہت تنگ آچکے ہیں اور چاہتے ہیں اس نوعیت کے ورک کلچر کو دفن کیاجانا چاہئے۔ کیونکہ یہی وہ طرزعمل ہے جو ریاست جموں وکشمیر کی ترقی اور عوام کی فلاح کی راہ میں حائل رہا ہے۔ جس حقیقت کا برملا اعتراف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی ادارہ بھی یہ کہہ کرکرچکاہے کہ جموں وکشمیر ہندوستان کی دوسری بڑی کورپٹ ریاست ہے۔ ریاست کے ماتھے کا یہ دھبہ کئی سال گذرنے کے باوجود پیشانی پر دور دور سے نظرآرہاہے۔
یوٹی کے ماتھے پر چسپاں اس داغ دھبہ کو مٹانے کا یہی بہترین وقت ہے۔