پاکستان میں اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس یا کانفرنس کا اہتمام وانعقاد اس حوالہ سے کامیاب قرارد ی جاسکتی ہے کہ تقریباً سبھی مسلم ممالک اس میں شریک ہوئے لیکن نتائج اور عمل آوری کے حوالہ سے کوئی توقع نہیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد کرائی گئی جب خود وزیراعظم پاکستان عمران خان کا سنگھاسن ڈول رہاہے، اس مخصوص تناظرمیں کانفرنس کے اہتمام وانعقاد کو خود پاکستان کے کچھ سنجیدہ حلقے ڈولتے اقتدار کو کچھ حد تک سہارادینے کی سعی قراردے رہے ہیں۔
اوآئی سی اجلاس میں چین کے وزیرخارجہ کی شرکت حیران کن تھی، بتایا گیا کہ چین کو بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی حالانکہ چین کسی بھی حوالہ سے شرکت کا اہل نہیں۔ چین کی ۱۴۴؍ کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی آبادی سوا دو کروڑ کے قریب ہے، جس آبادی کے بارے میں ایک مدت سے یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ انہیں عتاب کا نشانہ بنایاجارہا ہے ، چینی مسلمانوں کی مذہبی عبادت چھین لی گئی ہے، مساجد کو زمین بوس کیاجارہاہے، قرآن کریم سمیت دیگر مذہبی کتب کو بحق سرکار ضبط کیاجارہا ہے،مساجد میں اجتماعی نماز پر پابندی ہے، مسلمانوں کو عقوبتی مراکز میں قید رکھاجارہاہے، انہیں کھانے پینے اور اپنی مخصوص روایات کے مطابق رہن سہن کی آزادی نہیںہے، عالمی سطح پر چینی مسلمانوں کی اس حالت زار کے بارے میں رپورٹیں منظرعام پر آتی رہی ہیں جن کے بارے میںوزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں ان معاملات کی جانکاری نہیں ہے۔
او آئی سی اجلاس میں دعوت شرکت کا عمرانی اور خود تنظیم کا معیار اگر یہی ہے کہ چین ایسے بے دین ملک کو دعوت دی جائے تو ہندوستان جہاں۲۲؍ کروڑ مسلمان آباد ہیں کو کیوں او آئی سی میں شرکت یا حصہ داری کی اجازت نہیں ؟ کیایہ متعصبانہ اپروچ نہیں۔ چند سال قبل جب سابق وزیرخارجہ نے او آئی سی کی دعوت پر کانفرنس میں شرکت کی تو پاکستان نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ اجلاس کا بائیکاٹ تک کیا۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم کیلئے یہ سوال کئی اعتبار سے ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور غوروفکر کی دعوت بھی دے رہاہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ کم وبیش سبھی چھوٹے بڑے مسلم ممالک کا ہندوستان کے ساتھ کاروباری ،تجارتی اور سفارتی تعلق ہے ، زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے معاہدات ہیں، دورجانے کی ضرورت نہیں، سعودی عربیہ کی تیل کمپنی آرمکو اور ہندوستان کے سرمایہ کار امبانی کی کمپنیوںکے درمیان اگست ۲۰۱۹ء کے فوراً بعد ایک بہت بڑا تجارتی اور کاروباری معاہدہ ہوا، کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک وغیرہ کے ساتھ ہندوستان کے قریبی مراسم ہیں، تجارتی شراکت نامے ہیں، تو او آئی سی میں ہندوستان اگر کسی حوالہ سے مستقل رکنیت کا اہل نہیںتو کم سے کم مبصر کی حیثیت سے شرکت کا حقدار ہے ۔ کیا یہ او آئی سی سے وابستہ رکن ممالک کا دوغلا پن نہیں؟
کانفرنس سے وزراء خارجہ نے اپنے خطابات کے دوران مسلم اُمہ کو درپیش معاملات کا حوالہ دیا، اسلاموفوبیا کا تذکرہ ہوا، کشمیراور فلسطین کا بھی نام لیاگیا، روس …یوکرین جنگ کا بھی حوالہ دیاگیا، ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی بھی تجویزسامنے آئی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اوآئی سی بحیثیت ادارہ اور ممالک بحیثیت رکن کیا ان مخصوص معاملات پر کوئی اثر ونفوز رکھتے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ حالیہ چند برسوں کے دوران اس تعلق سے جو تاثر اُبھر کر سامنے آچکا ہے وہ بے حد مایوس کن ہے۔ وہ زمانہ گیا جب اسلامی ممالک انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں ممالک پر اثر رکھتے تھے، ان کی آراء اور موقفوں کا احترام لازم سمجھا جارہا تھا، لیکن مسلم ورلڈ آہستہ آہستہ اپنی اس آواز کو کھوتا رہا اور آج صورتحال یہ ہے کہ او آئی سی کے بارے میں غیر تودور کی بات خود یہ ممالک بے آواز اور بے وزن سمجھ رہے ہیں۔اس ادارہ کی حیثیت سعودی حکمرانوں کی ایک زرخرید لونڈی سے کچھ بھی نہیں خیال کیاجارہاہے جبکہ بحیثیت مجموعی کچھ سنجیدہ حلقے اس ادارہ کو ’’کافی کلب‘‘ کا ہم پلہ قرار دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے باوجود اسلامی ممالک کی تنظیم فلسطین کا مسئلہ کا باوقار حل تلاش کرنے میںسالہاسال گذرنے کے باوجود نہ کامیاب ہے اور نہ ہی اس میںکسی عجلت یاسنجیدگی نظرآرہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اپنے انفرادی تعلقات اور مراسم کاقیام ان کا انفرادی فیصلہ بھی ہے اور حق بھی لیکن اس حق کو استعمال کرنے سے قبل کسی ملک نے کم سے کم ’’دو ریاستی فارمولہ‘‘ کو قابل عمل بنانے کی سمت میں معمولی کردار بھی ادانہیں کیا۔ا س کے برعکس یکطرفہ طور سے عرب اور خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی دوڑمیں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے نظرآرہے ہیں۔مسلم ممالک نے فلسطین کے عوام کو ناکام بنادیا ہے لیکن اس ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے وہ فلسطین کی راگنی کا راگ الاپنے میں ہی اپنی خود اختراعی عاقبت تصور کررہے ہیں۔
دُنیا کے کئی خطے اسلاموفوبیا میں پیش پیش ہیں۔ لیکن کسی بھی مسلم ملک نے اس فوبیا میں مبتلا کسی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کئے، نہ کاروبار کو روکا اور نہ ہی تجارتی تعلق کو معطل کیا۔ مسلم ممالک کے اسی دوہرے پن اور تجارت کے حوالہ سے مفادات نے مسلم ورلڈ پر کمزوری کی تلوار لٹکا دی ہے جس کا فائدہ دُنیا کے باقی قریب ڈیڑھ سو ممالک اُٹھارہے ہیں جبکہ اسلاموفوبیا ان ممالک کا اب نظریہ بھی بن چکا ہے او رداخلی اور خارجہ پالیسیوں اور نظریات کا عقیدہ بھی!!
بہرحال اب جبکہ اقوام متحدہ نے اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور کرلی ہے، اب انتظار اس بات کو لے کر ہے کہ مسلم ورلڈ باالخصوص مسلم ورلڈکی قیادت کے دعویدار بعض بڑے ممالک کارویہ اور کردار کیسارہے گا۔