گرینڈ اولڈ پارٹی(کانگریس) کی گرینڈ اولڈ قیادت ایک ایک کرکے پارٹی سے رخصت ہو رہی ہے۔ رخصت ہورہے لیڈروں کے الوداعی پیغامات کے بین السطور فوری تاثر یہی مل رہا ہے کہ پارٹی چھوڑنے کا انہیں جہاں صدمہ اور افسوس ہے وہیں پارٹی اعلیٰ کمان پر براجماں لوگوں کی طرف سے بے عزتی اور مسلسل اہانت کا درد شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ سینئر لیڈران جو ابھی پارٹی سے وابستہ ہیں کب تک اور کتنی دیر تک پارٹی سے وابستہ رہیں گے البتہ لیڈروں کی رخصتی کی جو رفتار فی الوقت ہے وہ اگر کوئی انڈیکیٹر ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ بس اب کچھ ہی دیر ہے۔
بہرحال وزیراعظم نریندرمودی نے ایک دفعہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ کانگریس مکت بھارت دیکھنے کے متمنی ہیں۔ کیا ایسا ہوگا قطع نظراس کے البتہ جموں وکشمیر کانگریس مکت کی دہلیز کب کا پار کرچکاہے ۔ سینئر لیڈر غلام نبی آزاد جس نے اپنی زندگی اور سیاسی کیرئیر کا سب سے بڑا حصہ تقریباً پچاس سال پارٹی کی نشوونما میں صرف کئے، رات دن پارٹی کیلئے کام کیا، لیکن پارٹی اعلیٰ کمان نے آزاد کی ان خدمات بلکہ قربانیوں کا صلہ ان کی بے عزتی، اہانت اور ان کے بے لوث خدمات کو نظرانداز کرکے دیا۔
محض دس روز قبل جب غلام نبی آزاد نے ہائی کمان کی جانب سے انہیں کچھ کمیٹیوں کی قیادت کیلئے نامزد کیا تھا تو آزاد نے اس نامزدگی کو اپنی ایک اور توہین تصور کرکے ان سے علیحدگی اختیار کی تو اسی کالم میں ندائے مشرق نے ’غلام نبی آزاد کی توہین‘ کے عنوان کے تحت اپنی یہ رائے پیش کی تھی کہ جموں وکشمیر میں کانگریس کے تابوت میں یہ آخری کیل ثابت ہوگی۔ آزاد پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے اور محض چند گھنٹوں کے اندر اندر کئی کانگریس لیڈر وں نے بھی پارٹی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ پارٹی لیڈروں اور کیڈروں کی پارٹی سے کنارہ کشی کاسلسلہ کہاں تک جائے گا کچھ کہا نہیں جاسکتاہے البتہ یہ بات طے ہے کہ جموں ہو یا کشمیر غلام نبی آزاد پارٹی کیلئے ایک قدآور اور معزز شخصیت ہی نہیں بلکہ دور اندیش لیڈر کے طور پر بھی تصور کئے جاتے رہے ہیں۔
جموںوکشمیر کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر کئی سیاستدان آئے اور چلے گئے لیکن آزاد نے بحیثیت وزیر اعلیٰ کے محض مختصر تین سال کی مدت کے دوران انتظامیہ، زندگی کے مختلف شعبوں اور ورک کلچر کے احیاء کی سمت میں جو چھاپ چھوڑی ان کا عکس آج بھی نظرآرہاہے اور عوامی سطح پرآج کی تاریخ میں بھی ان کا موں کی سراہنا کی جارہی ہے۔
راجیہ سبھا میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر کے غلام نبی آزاد نے ملکی مسائل اور معاملات کے تعلق سے ایک منفرد مگر فعال رول اداکیا ، اپنی ریاست جموں وکشمیرکے حوالہ سے بھی بڑھ چڑھ کر معاملات کی نشاندہی کی، اس رول کو اداکرتے ہوئے انہوںنے شائستگی اور اخلاقیات کی حدود سے تجاوز نہیں کیا،بحیثیت اپوزیشن لیڈر حکومت وقت کو بھی اپنے مشوروں سے نوازا، غالبا ً یہی شائستگی اور رول کے احساس سے مغلوب ہوکر وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی اشک بارآنکھوں سے انہیں الوداع کہی۔ راجیہ سبھا کی تاریخ میں اس نوعیت کے بہت کم مناظردیکھے گئے ہوں گے۔
بہرحال یہ بات تو اب طے ہے کہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت جو گاندھی اینڈ کمپنی تک ہی محدود ہے اور جس کمپنی کو آزاد نے راہل گاندھی، ان کے پرسنل اسسٹنٹوں،محافظوں اور خوشامدیوں کاگروپ قرار دیا ہے کیلئے ان باتوں کا توڑ پیش کرنے کے حوالہ سے کوئی مضبوط دلیل یا استدلال نہیں جن کا تذکرہ آزاد نے اپنے پانچ صفحات پر مشتمل مکتوب میںکیا ہے۔ تاہم فوری ردعمل بلکہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کے ایک لیڈر جے رام رمیش نے کچھ کہنے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن کہنے ، لکھنے اور پیش کرتے وقت اس کی ٹانگیں کا نپتی ہی محسوس کی گئی ۔
کشمیر اور جموں سے پارٹی لیڈروں کے مستعفی ہونے کی اطلاعات کے تناظرمیں پارٹی کیڈر کی پارٹی سے رخصتی میلوں دورنہیں بلکہ چند ایک قدموں کے فاصلوں پرہے۔ البتہ آزاد کے پارٹی کے اندر جو بھی حامی یا چاہنے والے ہیں وہ آزاد کے اگلے قدم کے اعلان کا ضرور انتظارکریں گے۔ وہ کسی نئی پارٹی کی تشکیل کا اعلان کریں گے یا کسی علاقائی پارٹی میں شمولیت کریں گے اس کا انتظار رہے گا، البتہ یہ بھی امکان ہے کہ آزاد مزید کچھ دنوں،ہفتوں تک اپنے اگلے لائحہ عمل کے تعلق سے انتظار کریں گے اور اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ ان کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ وہ مشاورت پر یقین رکھتے ہیں اور سب کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
آزاد کے کانگریس سے مستعفی ہونے پر کانگریس سے وابستہ کچھ لیڈروں نے جو بیانات دیئے اور جس ردعمل کا اظہار کیا وہ یقیناً باعث تعجب ہے ۔راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے آزاد کے مکتوب میں مندرجات کو انسانیت اور حساسیت کے خلاف قراردیا۔ اجے ماکن نے یہ کہکر دھوکہ دہی قراردیا کہ اس وقت جبکہ پارٹی قیادت مہنگائی کے خلاف برسرجدوجہد ہے آزاد کا مستعفی ہوجانا بدقسمتی ہے۔ کسی دوسرے لیڈر نے آزاد کے مستعفی ہونے کے حوالہ سے دعویٰ کیا کہ اس کا ریموٹ کنٹرول مودی کے ہاتھ میں ہے۔ سابق یونٹ صدر غلام احمدمیر کا ردعمل مضحکہ خیز تصور کیاجارہاہے۔اُن کا کہنا ہے کہ’ ’ایک ایسے وقت میں جبکہ دفعہ ۳۷۰ کے خاتمہ کے بعد جموںوکشمیرکے دبے کچلے لوگوں کے مفادات کے حوالہ سے آواز بلند کرنے کی پارٹی ہائی کمان کی طرف سے تلقین کی جاتی رہی لیکن آزاد صاحب نے بے اعتنائی برتی‘۔ البتہ فاروق عبداللہ سمجھتے ہیں کہ آزاد کا اس وقت مستعفی ہوجانا صحیح وقت کا انتخاب نہیں۔شاید فاروق صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ مستعفی ہونے سے قبل آزاد کو ان سے مشاورت کرنی چاہئے تھی یا اجازت طلب کرنی چاہئے تھی۔