سمارٹ سٹی پروجیکٹ پر عمل آوری کی رفتار سے قطع نظر سرینگر میونسپل حدود کا حال احوال باالخصوص صحت وصفائی، بلدیاتی سہولیات کی فراہمی، تعمیرات کے حوالوں سے اجازت ناموں کااجرا، ویسٹ مینجمنٹ، ملاوٹ کی لعنت پر کنٹرول، لیبارٹری تجزیات کچھ ایسے معاملات ہیں جو ہنوز شہری آبادی کیلئے فکر وتشویش کا موجب بنے ہیں۔
آورہ کتوں کو ٹھکانے لگانے یا ان کی افزائش نسل پر مناسب روک تھام سے متعلق بے نتیجہ اور غیر موثر اقدامات بھی شہری آبادی کیلئے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس تعلق سے حالیہ چند برسوں کے دوران مختلف نوعیت کے جو طریقہ بروئے کار لائے جاتے رہے یا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں وہ اب تک بے نتیجہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں کے دوران پیش آمدہ بعض معاملات اس تشویش کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں جب آوارہ کتے راہگیروں پر حملہ آور ہوتے رہے ، دن ہو یا رات آوارہ کتوں کے جھنڈ در جھنڈ سکولی بچوں، عام راہگیروں یہاں تک کہ گاڑیوں پر بھی حملہ آور ہوتے نظرآرہے ہیں۔ کتوں کی آبادی درندوں کے زمرے میں شمار کی جاتی ہے اور درندوں کی خصلت اور فطرت کیا کچھ ہے یہ محتاج وضاحت نہیں ، لیکن سوچ کا المیہ ہی کہا جاسکتاہے کہ آبادی کے کچھ طبقوں میں موجود کچھ لوگ خود کو کتوں کا دوست جتلا کر یہ بیہودہ اور لنگڑی دلیل پیش کرتے رہتے ہیں کہ انہیں ٹھکانے نہیں لگانا چاہئے بلکہ ان کی آبادی کو روکنے کیلئے ان کی نس بندی کا راستہ اختیار کرناچاہئے۔ نسبندی کا راستہ اختیار کرکے بھلے ہی آبادی کی کچھ حد تک روک تھام ہوسکتی ہے لیکن ان کی بُنیاد خصلت …درندگی… کا خاتمہ نہیں !!
جہاں تک صحت وصفائی کا تعلق ہے یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کی ایک بھی کل سیدھی نہیں ہے۔ حالانکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ نت نئے تجربے کئے جارہے ہیں یا طریقے اختیار کئے جارہے ہیں لیکن صفائی کا فقدان گہراہی ہوتاجارہاہے۔ گھروں سے نکلنے والے کوڈاکرکٹ کو موثر ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کی سمت میں بہت ساری خامیاں ابھی بھی پائی جارہی ہیں۔حالیہ ایام تک گھروں سے کوڈا کرکٹ جمع کرنے کے کام پر معمور اہلکار روزانہ بُنیادوں پر یہ فرائض انجام دیتے رہے ہیں لیکن اب ۲، ۳ دن کے وقفے کے بعد گھروں سے یہ کوڈا کرکٹ حاصل کرنے کا غیر صحت مند اور گھروالوں کیلئے نقصان دہ اور تکلیف دہ طریقہ کار اختیار کیاجارہاہے۔ اچانک یہ وقفہ کیوں متعارف کرایاگیا اس بارے میں خاموشی ہے۔
اس تعلق سے ایک اور تکلیف دہ طریقہ کار بھی نشوونما پایا جاتارہا ہے۔ پلوں کے نیچے خالی پڑی جگہوں ، بستیوں کے قریب نکڑوں، گلی کوچوں پر ہر گھر سے حاصل کوڈا کرکٹ کو جمع کرایا جارہاہے، ان ڈھیروں سے اُٹھنے والی بدبو لوگوں کیلئے باعث تکلیف اور سوہاں روح بھی بن چکی ہے۔ نہ صرف آس پاس کے مکین اور کاروباری اس بدبو کو اپنی صحت کے ساتھ کھلواڑ تصورکرکے سہ رہے ہیں بلکہ دوسرے کچھ غیر صحت مند مگر سنگین نوعیت کے مسائل بھی جنم لیتے جارہے ہیں۔ اس حوالہ سے درجنوں مقامات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے مگر فی الحال چھانہ پورہ بائی پاس پل کے نیچے خالی جگہ کو ایک ڈمپنگ گرائونڈ میں تبدیل کرکے اس علاقے کے ہزاروں مکینوں، کاروباری اداروں ، راہگیروں کیلئے ہی نہیں بلکہ سکیورٹی پر تعینات فورسز اور پولیس عملے کیلئے سنگین نوعیت کے صحت مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔ گاڑی میں سوار ہوکے بھی اس مخصوص جگہ سے گذرنا ناگوار گذرتا ہے کیونکہ بدبو اس قدر تیز اور طرار ہے کہ جو قابل برادشت نہیں۔
بہرحال سمارٹ سٹی پروجیکٹ پر کس رفتار سے کام ہورہاہے اور اب تک کتنی پیش رفت حاصل کی جاچکی ہے اس سے قطع نظرشہر سرینگر کے بعض اہم مگر مصروف ترین بازاروں، سڑکوں اور چوکوں پر ریڈہ بانوں اور چھاپڑی فروشوں کی بڑھتی آبادی ٹریفک جام کے شدید مسائل کو جنم دینے کا موجب بن رہی ہے وہیں راہ گیروں کیلئے مشکلات اور عبورومرور میں ایک نیا اضافہ کا بھی باعث ہے۔اس پر دکانداروں اور کاروباری اداروں کی بڑھتی توند رہی سہی کسر پوری کررہی ہے۔ سرینگرمیونسپل کارپوریشن کی یہ نظرعنایت کیوں؟ ماضی میں اس طبقہ کی سڑکوں اور گلی کوچوں پر دکانداری اور ناجائز قبضوں کو برسراقتدار حکومتوں کی ووٹ بینک سیاست کی مرہون منت سمجھا جارہاتھا، اس وقت مصلحت کیا ہے؟
گراں فروشی تو ایک طرف اشیاء ضروریہ اور خوردنی اشیاء بشمول دودھ، دہی، مصالحہ جات اور دیگر روزمرہ استعمال میں لائی جارہی اشیا میں ملاوٹ اب وبائی صورت اختیار کرچکی ہے۔ کوئی لیبارٹری تجزیہ اب دستیاب نہیں، سیاست اور سیاسی مصلحتیں ہی سب کچھ نہیں، عام لوگوں کی صحت سلامتی اور بقاء سے جڑے معاملات حیات کے حوالہ سے ترجیحات میں شامل ہونے چاہیں لیکن سرینگر میونسپل سمیت جموںوکشمیر کے دوسرے ذمہ دار ادارے اور بلدیاتی ادارے ان معاملات کو اپنی ترجیح نہیں تصور کررہے ہیں۔
سرینگر کیلئے ماسٹر پلان پر سختی سے عمل آوری بھی اب ترجیحات میںشامل نہیں، کچھ رہائشی علاقوں میںکمرشل سرگرمیوں کی اجازت اور بے ہنگم تعمیرات کی کھلی چھوٹ کسی معمہ سے کم نہیں۔ جبکہ عام اور اوسط شہریوں کیلئے تعمیرات وتجدید کیلئے درکار اجازت ناموں کی اجرائی میں غیر معمولی تاخیر خواہش مند اور ضرورت مند شہریوں کیلئے کسی درد سر سے کم نہیں۔
یہ محض چند معاملات اور مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانے کی ایک سرسری کوشش ہے ، ورنہ معاملات اور مسائل کا حجم بہت ہے۔ سمارٹ سٹی پروجیکٹ کا سنہرا خواب جب بھی شرمندہ تعبیرہوگا وہ اُس وقت تک نامکمل اور تشنہ طلب ہی رہے گا جب تک سرینگر میونسپل کونسل اور جموں وکشمیر کے دوسرے بلدیاتی ادارے ان معاملات اور مسائل کو سنجیدگی اور توجہ کامرکزنہیں بناتے ہیں۔