دہلی اور پنجاب میں آپ کی قیادت میں برسراقتدار حکومتوں کی جانب سے سماج کے مختلف طبقوں کیلئے سہولیات، مراعات اور راحتی اقدامات کو حکومتی ترجیحات کا حصہ بنانے اور ان کو عملہ جامہ پہنانے کے حوالہ سے وزیراعظم نریندرمودی نے ایک حالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ مراعات ،جسے انہوںنے ’ریوڈی‘ کا نام دیا، ملک کی صحت اور ترقی کیلئے نقصان دہ ہے۔
وزیراعظم کی تنقید اور آپ پارٹی کے سربراہ کیجریوال کی طرف سے دفاع کرنے کے بعد سماج کے مختلف طبقے، سیاستدان، ماہرین اقتصادیات میدان میں کود گئے اوراس بحث میں شامل ہوکر اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے حوالہ سے اپنی آرائیں پیش کررہے ہیں۔ یہ بحث کب تک جاری رہے گی ، اس کا منطقی انجام کیا ہوگا بجٹ تخمینہ جات پر اس کے کس نوعیت کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کیا واقعی آبادی کے کمزور طبقوں اور مفلوک الحال لوگوں کو ان راحتوں سے کچھ فائدہ ہوگا، یہ سارے سوالات اپنی جگہ، ان کو لے کر بحث وتکرار اپنی جگہ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نوعیت کی مراعات آخر کب تک؟ اور کیا مرکز یا ریاستوں کے بجٹ تخمینہ جات اور وسائل اس بوجھ کو برداشت کرپائینگے۔
اس بحث کو فی الحال حاشیہ پر رکھتے ہوئے اپنی یوٹی جموں وکشمیر کی بات کریں۔ کشمیر نشین اپنی پارٹی اپنے قیام سے برابر اب تک قدم قدم پر یہ اعلان کرتی چلی آرہی ہے کہ کشمیر میں لوگوں کو چھ ماہ کیلئے ۵؍سو یونٹ بجلی اور اگلے چھ ماہ کیلئے ماہانہ ۳؍سو یونٹ بجلی مفت فراہم کی جائیگی۔ اسی طرح جموں خطے کے بجلی صارفین کو بھی پہلے ۵؍سو یونٹ ماہانہ اور پھر اگلے چھ ماہ کے لئے ۳؍ سو یونٹ ماہانہ مفت بجلی فراہم کی جائیگی، شرط صرف یہ ہے کہ پارٹی کو اقتدار میں لایاجائے۔
جموںوکشمیر میں بجلی کا منظرنامہ کیا ہے، اس بارے میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں، مرکزی سرکار ہر سال بجلی کے تعلق سے خسارہ کا بوجھ کم کرنے کیلئے کروڑوں روپے امداد کے طور منظور کرکے اداکررہی ہے، مقامی پیداوار اتنی نہیں کہ جو لوگوں کی ضروریات پوری کرسکیں۔ شمالی گرڈ سے ہر ماہ کسی نہ کسی مقدارمیں سپلائی خرید کی جاتی ہے۔ اس مخصوص تناظرمیں اپنی پارٹی صارفین کو مفت بجلی فراہم کرے گی تو خزانہ اور وسائل پر جو ہمالیائی بوجھ پڑسکتا ہے اس کی بھرپائی کون کرے گا، کہاں سے وسائل کو جٹایاجاسکے گا، مفت کی بجلی سپلائی پر کروڑوں اربوں روپے درکار ہوں گے، وہ ذرکثیر جموں وکشمیر کے کن وسائل سے حاصل ہوگی اور مرکز ی سرکار،کیا اس مفت کی تقسیم کی شریک بننے پر آمادہ ہوگی؟ جواب ناممکن کی صورت میںہے۔
جموں وکشمیر کا تاریخی منظرنامہ کیا بتاتاہے۔ الحاق کے بعد ۱۹۷۵ء تک یہاں کی کٹ پتلی حکومتیں عوامی تقسیم کاری نظام کے تحت لوگوں کو غذائی اجناس پر سبسڈی فراہم کرتی رہی۔ اکارڈ کے بعد پھر سے برسراقتدار آنے پر شیخ محمدعبداللہ نے اناج پر اس سبسڈی کو یہ کہہ کر ختم کردیا کہ یہ طریقہ کار اصل ترقیات اور خودکفالت کی راہ میں مانع ہے۔ چنانچہ تقریباً مفت کی ان روٹیوں کی تقسیم کی روک تھام کے فوراً بعد کچھ عوامی حلقوں میںاضطراب پیدا ہوا ‘ کچھ مقامات پر احتجاج کی صدائیں بھی بلند ہوئی لیکن شیخ محمدعبداللہ کی قیادت میں حکومت نے سرنڈر نہیں کیا بلکہ اپنے فیصلے کا ہر سطح پر معقول دلائل کے ساتھ دفاع کیا۔ پھر سبسڈی ختم کرنے کے نتیجہ میں جو رقم بچت میں آئی اس رقم کے ایک حصے کوسنطور ہوٹل کی عالیشان عمارت اور جموں میں پرانے توی پُل کی جگہ ایک نیا توی پُل کی تعمیر کا درینہ عوامی خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
جموںوکشمیر کے حوالہ سے چند تلخ حقیقتوں کو سیاسی مصلحتوں کے تحت نظرانداز کیاجارہاہے ۔ جموںوکشمیر باالخصوص کشمیر کسی بھی شعبے میں خود کفیل نہیں ، یہ کھپت والا خطہ بن چکا ہے، یہاں تک کہ روزمرہ استعمال میں آرہی ساگ سبزیوں کے حصول کیلئے بھی بیرونی منڈیوں اور سپلائزپر انحصار کرنا پڑرہاہے۔ ٹیکسوں کی بدولت کچھ کروڑ روپے ہی وصول ہورہے ہیں، تعلیم یافتہ، غیر تعلیم یافتہ ،ہنرمندوں اور کاریگروں کی ایک بہت بڑی آبادی بے روزگاری یا کم روزگار سے جڑے مسائل سے جھوج رہی ہے۔ جن وسائل سے جوکچھ بھی آمدنی لوگوں کو حاصل ہورہی ہے وہ ساری کی ساری بیرونی امپورٹ کی نذر ہو جاتی ہے۔
اس تعلق سے اگر مرکزی سرکار مالی امداد فراہم نہ کرے تو غالباً چھ لاکھ ملازمین پر مشتمل سرکاری عملہ ماہانہ تنخواہوں سے محروم ہوسکتی ہے۔ اس مخصوص تناظرمیں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ایسے خوشنما نعرے بلندکرنا اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان کے جذبات سے کھلواڑ کرنا کیا گمراہ کن نہیں؟ لوگوں کی آنکھوں میں ناقابل عمل خوابوں کو جگانا کیا ان کے جذبات اور احساسات کا بدترین استحصال نہیں؟
ووٹ بینک کی سیاست کا استعمال قابل فہم توہوسکتاہے لیکن مفت دسترخوان بچھانے کے اعلانات کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بتانا بھی کیا ناگزیر نہیں کہ اس دسترخوان کیلئے وسائل کہاں سے اور کس طریقے سے جٹائے جائیں گے جبکہ خود یوٹی کے اپنے وسائل ناکافی ہیں۔ بے شک دہلی اور پنجاب کے پاس اپنے بہت سارے وسائل ہیں اور آمدن کا معقول سسٹم بھی موجودہے۔ ان ریاستوں میں قائم حکومتیں اگر لوگوں کے کچھ طبقوں کو راحت فراہم کرتی ہیں تو بات قابل فہم ہے لیکن اس خطے میں مفت خوری کے اعلانات اس پس منظرمیںکئے جاتے رہیں جبکہ خود خطہ اپنی روزمرہ ضروریات کیلئے ہاتھ میں کشکول لے کر دہلی کی دہلیز پر ہرآن دستک دیتا نظرآرہاہے، اس نوعیت کے اعلانات ہضم نہیں ہوتے ۔