مفکرین نے سیاست کو دوسرانام’چاہت ‘رکھا ہے۔ چاہت کا معنی اور مفہوم بہت وسیع ہے۔ مثبت اور منفی ، کسی بھی پہلو سے اس چاہت کو ربڑ کی طرح جس طرف بھی کھینچاجائے انکار کرنے کی گنجائش نہیں۔ بہرحال سیاست منفی ہو یا مثبت یہ ریاکاری، مکاری، جھوٹ ، گمراہ کن اور خوشنما نعرے بازی ، چھل، فریب، شرمندہ تعبیر کے بغیر خواب دکھانے، اپنے سیاسی حریفوں کی کردار کشی اور طعنہ زنی کرنے، سیاسی اہداف اورمشن کی تکمیل یا حصول کیلئے اپنے ضمیر تک کو سرنڈر کرکے دنیاوی آکائوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور سب سے بڑھ کر موقعہ ومحل کی مناسبت سے ’یوٹرن‘ لیتے رہنے کا نام ہی چاہت ہے۔
کشمیرکی موجودہ سیاسی اُفق پر محض سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو ہر مکتب فکر سے وابستہ سیاستدانوں اور ان کی پارٹیوں کا یہی چہرہ واضح طور سے دکھائی دے رہا ہے۔ اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری کی اُس تقریر جوانہوںنے بمنہ میں اتوار کو پارٹی ورکروں کے سامنے کی کا بین السطور جائزہ لیاجائے تو معنی، مفہوم اور یوٹرنوں کے علاوہ کردار کشی سے ہی عبارت نظرآرہاہے۔
شیخ محمدعبداللہ پر قدم قدم پر یوٹرن لینے کا الزام، بقول ان کے کبھی اقتدار ، کبھی رائے شماری، کبھی پھر مسند اقتدار پر واپسی تاکہ آنے والی اپنی نسلوں کی تاج پوشیاں ہوتی رہیں، نیشنل کانفرنس پر اندرونی خودمختاری کی نعرہ بازی تومفتی محمد سعید کی پارٹی پرسیلف رول کا خواب دکھانے کا طعنہ، انہوںنے گمراہ کن نعرہ بازی کرکے نہ صرف خاندانی راج کو تقویت پہنچائی بلکہ کشمیر کو تباہی وبربادی سے بھی ہم کنار کیا۔ یہ پارٹیاں ابھی بھی غلط وعدے کرکے لوگوں کو اپنے اختراعی نریٹوز کے سہارے گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
بخاری صاحب نے اپنی تقریر میں ایک قدم آگے بڑھ کر دہلی پر یہ سنسنی خیز الزام بھی لگایا کہ ’’نئی دہلی کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ جموں وکشمیر میں امن قائم رہے البتہ اس خطے کے لوگوں کا پرامن ماحول دائو پر ضرور ہے‘‘۔ ان کی نئی دہلی سے مراد مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت اور جموں وکشمیر میں موجودہ انتظامی سیٹ اپ سے ہی موسوم کیاجارہاہے۔
بہرحال سید الطاف بخاری کے اس دعویٰ سے اتفاق کی گنجائش ہے کہ کشمیر نشین ہر مکتب فکر سے وابستہ سیاستدانوں نے اپنے گمراہ کن اور من پسند اختراعی نظریوں اور نعرہ بازیوں کے سہارے لوگوں کو گمراہ کیاجو کشمیر کی تباہی وبربادی کا سب سے بڑا موجب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سیاستدان کون ہیں، ان سیاستدانوں کا حال جو کچھ بھی ہے لیکن ان کے ماضی کے رول ، نظریات اور ترجیحات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے۔ چولہ بدلنے سے نیا اوتار کا روپ تو دھارن کیا جاسکتاہے لیکن فطرت اور خصلت نہیں ۔ کشمیر نشین کسی بھی ایک آج کی تاریخ کے یاکل تک کی تاریخ سے وابستہ سیاستدان کا نام بتائے جس نے گرگٹ کی طرح خود کو نہ بدلا ہو؟
آج کی تاریخ میں کشمیرکی سیاسی اُفق پر جلوہ گر کچھ سیاستدان کیا کل تک اندرونی خودمختاری اور سیلف رول کا حصہ نہیں تھے؟ کیا ان سے کئی ایک عسکری تحریک سے وابستہ نہیں تھے؟کیاان میں سے کچھ نے حوالہ کا کاروبار نہیں چلایا، کیا ان میں سے کئی بلکہ اکثریت سابق ریاستی قانون سازیہ کے رکن یا اُس تعلق سے بحیثیت وزیر صاحب اقتدار نہیں تھے؟
سیاسی اور نظریاتی تضادات کے بیچ کشمیرکے چپے چپے پربونے کی سمت میں کیا مرحوم بخشی غلام محمد، سہ ماہی وزیراعظم شمس الدین عرف کٹھ، مرحوم غلام محمد صادق، انڈابھون کے خالق سید میر قاسم، اوران کے بعد آنے والے کم وبیش سبھی سیاستدانوں نے اپنا کلیدی کردار ادا نہیں کیا؟ کیا جموں وکشمیر میں بدعنوان اور کورپٹ طریقہ کار کی سرپرستی اعلیٰ سیاسی سطح پرنہیں کی جاتی رہی؟ کیا محض ایک روپیہ سالانہ کرایہ کے عوض کئی ایکٹر پر مشتمل اراضیوں کی الاٹمنٹ سیاستدان اپنے اور اپنے منظور نظروں کے نام پر حاصل نہیں کرتے رہے؟ کیا مختلف سکیموں اور پروجیکٹوں کے لئے مخصوص بھاری بھرکم سبسڈیوں کو اپنی تجوریوں کی زینت سیاستدان نہیں بناتے رہے اور کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ جنگلات کا صفایا فارسیٹ لیسیوں کی ٹولیوں کے نام پر حکمران طبقے نہیں کرتے رہے ۔ کس کس لوٹ، استحصال ، جبر ،حقوق کی سلبی اور ریاکاری اور مکاری کا احاطہ کیاجائے، یہ یاد ماضی ہیں جو عذاب سے آج بھی کچھ کم نہیں۔
نچوڑ یہ ہے کہ کشمیرکی سیاسی افق پر جو بھی سیاستدان جلوہ گررہا اس نے عوام کو خوش نما نعروں سے گمراہ کیا، ان کے احساسات اور جذبات سے مجرمانہ کھلواڑ کیا ، کسی نے قرآن ہاتھ میں لیا تو کسی نے سبزہلالی پرچم بلند کرکے جذبات کا سودا کیا، نوجوانوں کے ارمانوں کو کچل دیا، اپنے منظور نظروں کو چور دروازوں سے داخل کرکے مستحق اور باصلاحیت نوجوان نسل کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جاتے رہے، کیا کچھ کشمیرکے ساتھ نہیں کیاگیا، بولی نہیں گولی کا نعرہ بلند کرکے نوجوان نسل کو نشانہ بنایاجاتارہا، پھرا س قاتلانہ نعرہ کو مشن اور وژن کا چولہ پہنایا گیا۔
لب ولباب یہ ہے کہ کشمیرکاہر سیاستدان چاہئے اس کا تعلق سیلف رول ، رائے شماری، اندرونی خود مختاری ، ۳۷۰ یا اور کسی چاہت سے رہا ہے کشمیر اور کشمیریوں کا مجرم ہے، وہ تباہی وبربادی اور خونریزی کابراہ راست ذمہ دار ہے، چولے اور پیرھن تبدیل کرنے اور یوٹرن لینے سے کسی بھی سیاستدان کے ماضی، ماضی قریب اور حال کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے ، کشمیر بدل رہا ہے، سیاستدان اپنا ہاتھ کھینچ کرکشمیرکو بدلنے دیں، اس کی اس نئی راہ میں مانع ہونے کی کوشش نہ کریں، اب تقدیر سازی کا مرحلہ ہے،کشمیر کا نوجوان اب خود اپنی تقدیر متعین کرنے کا خواہاں ہے، اس کو استحصالی سیاست اور استحصالی نظریات کا پھر سے نشانہ بنانے کی حماقت نہ کریں۔
ہم کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے اور نہ دل آزاری میں یقین رکھتے ہیں، لیکن زہر ہلاہل کو بھی قند کہنے کی حماقت نہیں کرسکتے۔ مکافات عمل بھی کوئی نہ کوئی حقیقت رکھتا ہے ۔ انکار نہیں !!