جموں وکشمیرمیں پردیش کانگریس کے تابوت میں کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ پارٹی کے سینئر ترین لیڈر غلام نبی آزاد کو پارٹی سے خارج تو نہیں کیاگیا البتہ تنزل عہدہ کا فیصلہ کرکے پارٹی ہائی کمان نے جموںوکشمیر سے اپنی بے آبرو بے دخلی کی جانب اپنی جاری پیش قدمی کو ایک نئی رفتار عطاکردی ہے۔
پارٹی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ کچھ عرصہ سے جو رویہ روا رکھاجارہاہے اور جس کے ردعمل میںپارٹی کے کچھ اہم ترین سینئر لیڈر علیحدگی اختیار کرتے جارہے ہیں وہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ سونیا گاندھی اینڈ خاندانی کمپنی پارٹی قیادت کی تقسیم اور ذمہ داریوں کے حوالہ سے کسی کی شرکت کو پسندیدگی کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہی ہے بلکہ منظم طریقے سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ پارٹی کیڈراور دوسرے درجہ کے عہدیدار اندھے بھگتوں کے نقش قدم پر چلتے رہیں اور کوئی سوال بھی نہ کریں۔
دہلی سے کپل سبل کی پارٹی سے علیحدگی، پنجاب سے منیش تیواری کی پارٹی سرگرمیوں سے کنارہ کشی ، مدھیہ پردیش سے جوتر سکینڈیا کی اپنے ساتھیوں سمیت حکمران جماعت میں شمولیت کے علاوہ گروپ ۲۳؍ کے ساتھ وابستگی رکھنے والے سینئر لیڈراں کی کنارہ کشی ایسے پیش آمدہ معاملات اور واقعات سے کوئی عبرت وسبق حاصل نہ کرنے کا رویہ اس بات کی طرف ایک اور واضح اشارہ ہے کہ پارٹی ہائی کمان حد درجہ کی مغرور ، متکبر اور آمرانہ ذہنیت کی حامل ہے۔
جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد، جو مختلف مرکزی وزارتوں میںبحیثیت وزیر اور راجیہ سبھا میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر کے اہم کردار اداکرچکے ہیں جبکہ زائد از ۴۰؍ سال پارٹی کیلئے وقف کرنے والے لیڈر کی تضحیک اور تذلیل کانگریس سے وابستگی رکھنے والے لیڈروں، عہدیداروں اور عام کیڈر کی بھی تضحیک اور تذلیل ہے جو پارٹی کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔
پردیش کانگریس کی صدارت کیلئے ایک جونیئر لیڈر کی تقرری قابل اعتراض تو نہیں البتہ سینئر لیڈروں کو اُس جونیئر کی قیادت اور ماتحت کام کرنا کسی بھی باوقار لیڈر کیلئے قابل قبول اور قابل گوارا نہیں ہوسکتا ہے ۔ آزاد نے کانگریس کی ممکنہ الیکشن کے حوالہ سے تشہیری کمیٹی کی قیادت قبول نہ کرکے پارٹی ہائی کمان کو ہی نہیں بلکہ ان دوسرے لیڈروں کو بھی واضح اور دوٹوک پیغام دیدیا ہے کہ سنیئر لیڈروں کی اس طرح کی تضحیک وتذلیل درحقیقت پارٹی کی تنزلی اور انحطاط کی جانب جاری پیش قدمی کو مضبوطی عطاکرنے کیلئے کافی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ماضی قریب میں کانگریس جموں وکشمیر میں برسراقتدار رہی لیکن اقتدار کا یہ کشکول پارٹی ہائی کمان اور مرکز میںبرسراقتدار پارٹی حکومتوں کی فراڈ، غیر منصفانہ اور جعلسازی سے سراپا عبارت الیکشن پراسیس کی مرہون منت ہی رہا ہے۔ ۱۹۵۲ء سے ۱۹۷۵ء تک کانگریس بغیرکسی شرکت کے جموں وکشمیر میں برسراقتدار رہی، اس کے بعد منظرنامہ تبدیل ہوا، کانگریس کو بعد کے الیکشنوں میں کچھ نشستیں ضرور حاصل ہوئی لیکن وہ جموں سے جبکہ کشمیر سے جو کچھ کانگریس حاصل کرتارہا وہ ان حلقوں سے کانگریس کے کامیاب اُمیدواروں کی ذاتی کاوشوں، خاندانی ، لسانی اور طبقاتی اثرو نفوز کی مرہون منت ہی تصور کی جاتی رہی ہیں ۔ ان چندکامیابیوں کے بل بوتے پر کانگریس کبھی نیشنل کانفرنس ، کبھی پی ڈی پی کے ساتھ شریک اقتدار رہی۔ شرکت کی ان بیساکھیوں کے باوجود کانگریس جموںوکشمیر کے عوام کے حقوق اور وسیع ترمفادات کو سلب کرنے کی اپنی روایتی روش سے باز نہ رہی ۔ یہاں تک کہ جسٹس صغیر احمد کمیشن کی رپورٹ کو بھی عملی جامہ پہنانے نہیں دیا اور یہ عذر لنگ کابینہ سب کمیٹی کے ایک رکن تاج محی الدین کی وساطت سے پیش کرتی رہی یہ مسئلہ جس کا تعلق اندرونی خودمختاری کی بحالی سے ہے اندرا…شیخ اکارڈ کے تحت حل کردیاگیا ہے جوکہ جھوٹ کے پلندہ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
بہرحال غلام نبی آزاد کو حاشیہ پر کرنے اور خود آزاد کی جانب سے نئی ذمہ داریوں سے سبکدوشی اختیار کرنے کے فیصلے نے جموں وکشمیرمیں کانگریس کو تقریباً زمین دوز کرنے کاراستہ ہموارکردیا ہے۔جموں میں بی جے پی کی پیش قدمی جاری ہے جبکہ کشمیر میںیہ پارٹی اس کے صدر دفترمیں موجود چند افراد اور ان کی ذاتی سرگرمیوں تک محدود ہوچکی ہے۔ کشمیر نے کبھی اور کسی بھی مرحلہ پر کانگریس کو نہ پسند کیا ہے اور نہ قبول، البتہ وقت کے کچھ طالع آزمائوں ، جو ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر دورمیں موجود ہوتے ہیں، نے کانگریس کو اپنے گلے کا ہار ضرور بنایا لیکن عوامی سطح پر اس پارٹی کو کشمیر کے ساتھ اس کی جعلسازیوں، دغا بازیوں، ریا کاریوں، جمہوری اورآئینی حقوق کی مسلسل پامالیوں اور فراڈ الیکشن کے راستے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخی عہد شکنیوں کے ردعمل میں سند قبولیت عطانہیں کی۔
کانگریس نے اپنے کرموں اور معاندانہ کردار کے حوالہ سے اپنے اس تابوت میں اب جبکہ خود بلکہ اپنے ہاتھوں سے ایک اور کیل ٹھونک دی ہے عین ممکن ہے کہ یہ کیل اس تابوت میں ٹھونکی آخری کیل بھی ثابت ہوسکتی ہے۔یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ مکافات عمل ایک حقیقت ہے، البتہ یہ عمل کب اور کس وقت جلوہ گر ہوجائے اس بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ وقت ہی اس کافیصلہ کرتا ہے ، لوگ بس انتظارکرسکتے ہیں۔