کورونا ایک بار پھر اپنے تمام تر قہر کے ساتھ کشمیر پر نازل ہے۔ متاثرین کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے البتہ اللہ کا شکر ہے کہ زندگیاں تلف نہیں ہورہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جو اعداد وشمارات سامنے آئے ہیں ان پر سرسری نگاہ دوڑانے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کشمیر زیادہ متاثر ہے لیکن زیادہ متاثرین میںسرینگر سرفہرست ہے۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا کی ذیلی قسم اومیکران نے بھی کشمیرمیں ڈیرہ ڈالدیا ہے جبکہ کچھ کورونا کے حوالہ سے یہ مان کر چل رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال وائرل انفیکشن ہے۔ یہ سارے طبی ماہرین اس تعلق سے اگر کسی ایک بات پر متفق نہیں تو اس کا ردعمل لازمی طور سے عوامی سطح پر یہی رہے گا اور ہے کہ اگر یہ بھی نہیں یاوہ بھی نہیں تو پھر یہ کیا ہے؟
صورتحال سے نمٹنے کیلئے جموں اور کشمیر دونوں صوبوں میں اب تک ایک مضبوط ادارتی ، تشخیصی اور نگہداشت کا ڈھانچہ تشکیل پاچکا ہے جبکہ متاثرین کے علاج ومعالجہ اور دیکھ بھال کیلئے فی الوقت تربیت یافتہ افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔مطلوبہ ادویات بھی دستیاب ہے۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ عوامی سطح پر مکمل جانکاری کے باوجود مطلوبہ احتیاط سے کام نہیں لیاجارہاہے ۔ لوگوں کی اکثریت بھی ماسک کا استعمال نہیں کرتی، جبکہ کاروباری اور تجارتی اداروں کے منتظمین بھی کوتاہی اور تساہل سے کام لے رہے ہیں۔ اندر آنے والے گاہکوں کیلئے ماسک کااستعمال کو نہ لازمی سمجھا جارہاہے اور نہ ہی اس تعلق سے اصرار کیاجارہاہے۔
اس نوعیت کا انداز فکر اور اپروچ غیر صحت مند اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے لوگوں کی بے احتیاطی اور کاروباری اداروں کا تساہل کورونا کے نئے قہر کے برپا کا ذمہ دار تصور کیاجارہاہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں بشمول امرناتھ یاتریوں کی ایک اچھی خاصی تعداد وادی میں موجود ہے اور آمدورفت بھی جاری ہے احتیاط تو لازم ہوناچاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے احتیاط کو حاشیہ پر رکھنے کی افسوس ناک روش ترجیحات بن رہی ہے۔
باعث تشویش یہ ہے کہ سکولی بچے بڑی تعداد میں متاثر ہورہے ہیں۔ ان میں بخار، نزلہ، کھانسی، جبکہ کچھ معاملات میں قئے بھی ہے خاص طور سے قابل ذکرہے۔ بچوں کے زیادہ سے زیادہ متاثر ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بچوں کی سکولوں میں حاضری دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے جبکہ ڈاکٹروں کے نجی کلنکوں اور صحت کے دوسرے مراکز میں ان کی حاضری میں بتدریج اضافہ کا رجحان جاری ہے۔ بچوں کوا س مرض سے محفوظ رکھنے کیلئے بطور احتیاط یہ راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا کہ فی الحال اگست کے اختتام تک انہیں رخصت پر رکھا جاتا لیکن یہ احتیاطی راستہ یا تدبیر اختیار کرنے کی بجائے متاثرہ بچوں کوا ن کے منتظمین سکول نہ آنے کا مشورہ دے کر نہ جانے کیا پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں یا کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کورونا سے متاثرین کی جو تعداد ہر ۲۴؍ گھنٹے بعد سرکاری سطح پر ظاہر کی جارہی ہے اُس تعداد میں یہ سکولی بچے شامل نہیں ہیں کیونکہ ان بچوں کا علاج ومعالجہ نجی کلنکوں میں ہورہاہے اور دیکھ بھال والدین گھروں میں کررہے ہیں۔ اس تعلق سے دیکھا جائے تو کشمیر میں کورونا یا وائرل اینفیکشن سے متاثرین کی روزانہ تعداد بہت زیادہ ہے۔اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور ہر سطح پر احتیاط کو لازمی قرار دینے اور لازمیت کو عملی جامہ پہنانے کی حد سے زیادہ ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ غیر ذمہ دارانہ طرز عمل خدانخواستہ کسی نئی تباہی کو دعوت دینے کا موجب بن سکتا ہے ۔
سرینگر جموں وکشمیر کے تمام تر ۲۰؍ضلعوں میں سب سے زیادہ متاثر کیوں ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں یہ غالباً ایک معمہ ہی ہے ۔ البتہ بادی النظرمیں جو وجوہات اُبھر کرسامنے ہیں انہی سے ملتے جلتے وجوہات دیگر ضلعوں کی آبادی میں بھی پائے جارہے ہیں ۔ بہرحال جوکچھ بھی ہے لازم ہے کہ ہر ممکن اور ہر سطح پر ہر شعبے کے حوالہ سے احتیاط سے کام لیاجانا چاہئے۔ کاورباری اور تجارتی اداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کے لئے ماسک اور دیگر احتیاطی تدابیر کو لازم قراردیں اور اس پر سختی سے عملی جامہ پہنائیں۔
محکمہ صحت اور اس سے وابستہ اس کے ذیلی ادارے تعلیمی اداروں کا دورہ کریں اور بچوں کا طبی معائنہ کرکے کورونا کی روک تھام کی سمت میں اپنا ذمہ دارانہ رول اداکریں۔ابھی حال ہی میں بچوں کیلئے ویکسین کی مخصوص خوراک منظور کی جاچکی ہے۔ عام اطلاع یہ ہے کہ کشمیر میںبچوں کیلئے ویکسین کوزیادہ اہمیت یاتوجہ کا حامل نہیں تصور کیاجارہاہے غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سکولی بچے زیادہ سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو زمینی سطح پر صورتحال کو بہتر بنانے اور بچوں کو مخصوص ویکسین کے دائرے میں لانے کو اب ترجیحات کا حصہ بنانا چاہئے۔