طبی نگہداشت، امراض کی تشخیص اور وابستہ دوسرے معاملات کے تعلق سے جموں وکشمیرمیں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، انداز فکر اور طرزعمل کے حوالہ سے بھی ایک نئے روڈ میپ پر جموں وکشمیر گامزن دکھائی دے رہا ہے، ۷۵؍سال کے دوران جموںوکشمیرمیں صرف چند ایک میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں آیا جبکہ گذرے چند برسوں کے دوران اب تقریباً ہر ضلع میں میڈیکل کالجوں کی شکل میں کوئی نہ کوئی ادارہ یا ادارتی ڈھانچہ نظرآرہا ہے۔
پرائیوٹ سیکٹر میں بھی ہسپتالوں ، نرسنگ ہیوموں، کلینکوں،ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کا قیام پوری رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ ابھی چند گھنٹے پہلے سرینگر میں ایک اور ڈیڑھ سوبستروں پر مشتمل جدید طرز اور سہولیات سے لیس ہسپتال کا افتتاح کیاگیا کشمیراور جموں دونوں صوبوں میں صحت عامہ کے تعلق سے جدید سہولیات سے مزین نئے ہسپتالوں کے قیام کا ایک بڑ ا پروجیکٹ وضع کیاگیا ہے اور اس پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے ملک کے پرائیوٹ سیکٹر کو حصہ داری کی دعوت دی گئی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران جموںوکشمیر میں صحت عامہ کے شعبے میںکافی پیش رفت حاصل کی گئی ہے۔ نجی سیکٹرمیں کشمیر اور جموں دونوں صوبوں میں صحت کے نئے مراکز کا جال بچھ گیا لیکن ان مراکز میں درکار تمام تر سہولیات، طبی نگہداشت اور تشخیص کے تعلق سے خدمات دستیاب نہیں چنانچہ ہرماہ مختلف امراض میں مبتلا افراد بیرون جموںوکشمیر امرتسر، چنڈی گڑھ ، دہلی، بنگلور اور مہاراشٹر کا رُخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اگر چہ کٹرہ میں جدید طرز کے ایک اسپتال کے قیام اور دستیاب سہولیات کے نتیجہ میں لوگوں کو کچھ راحت ملی لیکن اس کے باوجود بہتر ، جدید اور موثر طبی سہولیات اور علاج ومعالجہ کیلئے بیرون یوٹی کا رُخ کرنا پڑرہاہے۔
سرکاری ہسپتالوں کا جہاں تک تعلق ہے یہ ابھی بحیثیت مجموعی بچھڑے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس بچھڑے پن کی ایک وجہ ان ہسپتالوں میں نصب پرانی مشینری اور پلانٹس پر حد سے زیادہ انحصار خاص طور سے قابل ذکر تصور کیاجارہاہے۔ فنڈز کی کمی بھی وجوہات میں شامل ہیں جبکہ ان ہسپتالوں میں قائم ٹیسٹنگ لیبارٹریوںکو بھی جدید سہولیات دستیاب نہیں لیکن ان مشکلات باالخصوص مناسب وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود سرکاری شعبے میں کچھ نئے میڈیکل ادارے قائم کرکے عوام کیلئے وقف کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ نئے ادارے جدید ترین سہولیات، طبی نگہداشت وغیرہ کے تعلق سے خدمات سے لیس ہیں، ان نئے اداروں کے قیام کے نتیجہ میں مختلف امراض میں مبتلا بیماروں کا بیرون جموںوکشمیر رخ کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے۔
البتہ اس سارے تناظرمیں ادویات کا تجزیہ کرنے کی موثراو رقابل اعتماد سہولیات دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف دواساز کمپنیاں اس کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر غیر موثر اور دونمبر کی ادویات کی کھپت کیلئے کشمیر کو بہت بڑے بازار میں تبدیل کرنے میں حالیہ برسوں کے دوران بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ا س ناجائز کاروبار میں ان دو ساز کمپنیوں کو مقامی سطح پر کچھ سٹاکسٹوں ، بیوپاریوں اور دکانداروں کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ یہ بات زبان زدہ عام ہے کہ کشمیر کے بازار غیر موثر اور دونمبری ادویات سے بھرے پڑے ہیں جبکہ یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ ان غیر موثر ادویات کے مسلسل استعمال کے کارن کشمیرمیں ہر گھر اگر چا رنفوس پر مشتمل ہے تو ساڑھے تین نفوس کسی نہ کسی بیماری سے جھوج رہے ہیں۔ یہ وباء اب مدت سے مسلط ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ مستقل اور مستحکم جڑیں پکڑتی جارہی ہے لیکن تمام تر حقائق بے نقاب ہوکر سامنے آنے کے باوجود حکومتی سطح پر اس کا تدارک ممکن نہیں ہو پارہاہے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ ڈاکٹروں کا ایک مخصوص قبیلہ ان غیر موثر ادویات کو تجویز کرکے نہ صرف اس ناجائز دھندے میں سراپا ملوث ہیں بلکہ اس معاونتی کردار کے عوض دوا ساز کمپنیوں کے وظیفہ خوار بن کر مختلف نوعیت کی مراعات حاصل کررہے ہیں۔
صحت عامہ کے شعبے میں بہتری لانے اور عوام کو طبی نگہداشت اور بہتر تشخیص کی خدمات اور سہولیات میسر رکھنے کیلئے لیفٹنٹ گورنر منوج سہنا کی قیادت میں ایڈمنسٹریشن جو رول اور کردارادا کررہی ہے عوامی حلقوں میں اس کی سراہنا کی جارہی ہے لیکن اس مخصوص شعبے میں پرائیوٹ اور پبلک سیکٹرمیں موجو دکچھ حقیر مفادات اور ذہنیت کے حامل عنصرہیرا پھیری اور بدعنوان طرزعمل سے باز نہیں آرہے ہیں۔ اس حوالہ سے ابھی چند روز قبل سٹیٹ ہیلتھ اتھارٹی نے کچھ ہسپتالوں کی رجسٹریشن معطل کردی جبکہ کچھ پرائیوٹ ہسپتالوں پر ہیرا پھیری کی پاداش میں لاکھوں روپے کے جرمانے بھی عائد کردیئے۔
یہی وہ عناصر ہیں جو اپنی ملازمت کے بھیس میں ہسپتالوں میں نصب پلانٹ اور مشینریوں کو ناکارہ بناکر مریضوں کو پرائیوٹ کلینکوں اور لیبارٹریوں کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن سنجیدہ توجہ ان امورات کی جانب مبذول کرے تواس لعنت اور ناجائز طریقہ کار کا تدارک کیاجاسکتاہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ سرکاری صحت اداروں میں تعینات جوغلط ذہنیت کے حامل ہیں بلکہ حد سے زیادہ کورپٹ بھی ہیں کی یہ سیاہ کاریاں یوٹی ایڈمنسٹریشن کی کاوشوں، لگن اور بہتری کی سمت میںاُٹھائے جارہے اقدامات پر پانی پھیرتے جارہے ہیں جبکہ ان لالچی ہاتھوں کے اس نوعیت کے طرزعمل سے عوامی حلقوں میں حکومت کے تئیں بدگمانیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مخصوص ذہنیت کے حامل عنصر کی نشاندہی کرکے انہیں چلتا کیاجائے تاکہ لوگ بھی راحت محسوس کرسکیں اور ایڈمنسٹریشن کے اقدامات بھی ثمر آور ثابت ہوجائیں۔