نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے جمعہ کو جموں کشمیر اور لداخ میں بار کونسل کے قیام کی ہدایت دینے کی درخواست پر مرکز اور دیگر سے جواب طلب کیا۔
جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ اور جے بی پاردی والا کی بنچ نے خاتون وکیل سپریا پنڈتا کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی وزارت قانون و انصاف، بار کونسل آف انڈیا اور دیگر کو نوٹس جاری کیا۔
جموں و کشمیر اور لداخ کی ایک خاتون وکیل سپریا پنڈتا نے مرکزی زیر انتظام علاقوں کی مشترکہ ہائی کورٹ میں بار کونسل کے قیام کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔درخواست میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ میں پوری وکلاء برادری کے پاس کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہے جہاں وہ بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرز پر بار کونسل کے فوائد حاصل کر سکیں۔
عدالتوں میں کام کرنے کیلئے وکلاء کو جو پراکزمٹی کارڈ بار کونسل کی جانب سے اجراء کیے جاتے ہیں، جموں و کشمیر کے وکیل اس سے بھی محروم ہیں۔
عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی عرضی میں اس کارڈ کی عدم دستیابی کو بھی ایک جواز کے طور پیش کیا گیا ہے اورکہا گیا ہے جو وکلاء اس کارڈ کا حصول چاہتے ہیں انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔
سپریا پنڈتا نے اپنی درخواست میں مزید کہا ہے کہ بار کونسل آف انڈیا نے۶فروری۲۰۱۷ کو سپریم کورٹ کے سامنے کہا تھا کہ اس نے جموں و کشمیر اسٹیٹ بار کونسل رولز کو منظوری دے دی ہے لیکن اس کے باوجود، بی سی آئی نے اس سمت میں کوئی پہل نہیں کی چنانچہ ابھی تک جموں و کشمیر اور لداخ میں بار کونسل کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے۔
کشمیر میں وکیلوں کے مسائل اور ان کی شنوائی، کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کرتی تھی جبکہ جموں میں جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن فعال ہے۔ یہ دونوں ایسوسی ایشنز سیاسی طور متوازی نظریات رکھتی ہیں۔
کشمیر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ایک وقت علیحدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ تھی اور بار کے آئین کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے تاہم جموں بار ایسوسی ایشن الحاق کو حتمی مانتی ہے اور ۲۰۰۸ میں امرناتھ ایجی ٹیشن کے دوران اس ایسوسی ایشن نے علیحدگی پسندوں کے خلاف چلائی جانے والی ایجی ٹیشن کی قیادت کی تھی جس کے دوران کشمیر وادی اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی تھی۔
کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم اور کئی دیگر عہدیداروں اور اراکین کو حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کے خاتمے کے اعلان سے قبل حراست میں لیا تھا۔ گزشتہ برس بار ایسوسی ایشن نے انتخابات منعقد کرنے کی کوشش کی لیکن حکام نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔