مردوں کے زیر تسلط اس معاشرے میں خواتین کی ہراسانی ،تشدد، چادر اور چاردیواری کا تقدس اور حرمت کی پامالی، اغوا،عصمت دری اور دوسرے اوچھے اور غیر اخلاقی حربے نہ صرف معمول بن رہے ہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سوسائٹی کیلئے شرمندگی کا بھی باعث ہیں۔ لیکن اس شرمندگی کے باجود خواتین کے خلاف تشدد میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے بلکہ ہر گذرے دن کے ساتھ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہاہے۔
ذمہ دار کون ہے ؟ مردوں کا رویہ اور خواتین کے تعلق سے ان کے اندر پرورش پارہے کچھ نفسیاتی کیڑے، خود خواتین کا طرزعمل، سماجی سطح پر غیر ذمہ دارانہ اپروچ اور فکر، بے راہ روی کو اب معمولات زندگی کا ایک ان مٹ طرزعمل تصور کرنا، ہوس گیری، مروجہ قوانین میں موجود خامیاں ، جوڈیشری کا سافٹ اپروچ، بے محنت اور ناجائز ذرائع سے حاصل دولت کا نشہ اور اس حوالہ سے بدمستی، مخلوط تعلیمی نظام یا اور بھی کچھ؟
اس منظرنامے کے تعلق سے گذشتہ چند ایک برسوں کے اعداد وشمارات حکومت کے پاس ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ان اعداد کا موازنہ کرنے پر یہ بات مشترشح ہوجاتی ہے کہ جموں وکشمیرمیں خواتین کے خلاف مختلف نوعیت کے تشدد، ہراسانی اور حرمت کی پامالی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہاہے۔ تاہم اس تعلق سے کتنے معاملات میں عدالتوں سے مجرمین سزایافتہ ہوئے یا کتنے معاملات میںمقدمات زیر سماعت یا التواء میں چلے آرہے ہیں اس کے بارے میںکوئی ڈاٹا فی الوقت دستیاب نہیں ہے۔ البتہ یہ بات سنجیدہ حلقوں میں ضرورت کھٹک رہی ہے اور باعث تشویش بھی کہ عدالتوں میں ایسے معاملات میںسماعتوں میں غیر ضروری تاخیر ہورہی ہے جس کا فائدہ ملزم اُٹھانے کی پوزیشن میں آتے ہیں جبکہ یہ تاخیر وہ اپنے لئے حوصلہ افزائی تصور کررہے ہیں۔
پھر اگر کسی واقعہ باالخصوص اغوا، عصمت دری، ٹرولز، ہراسانی وغیرہ معاملا ت میں کوئی نابالغ قانون کی گرفت میں آجاتا ہے تو عدالتیں مروجہ قانون کا سہارا لیتے ایسے ملزمین کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہوئے انہیں ضمانتوںکی سندیں عطاکررہی ہیں۔ قاتل، قاتل کے نام سے ہی جانا جاتا ہے چاہئے وہ بالغ ہویا نابالغ،اغوا کار یا عصمت دری کا مرتکب ملزم اور مجرم کہلائے گا چاہئے وہ نابالغ ہو یا بالغ لیکن معلوم نہیں کہ آئین اور قانون سازوں نے متعلقہ قوانین میں ان کے لئے یہ نرم گوشہ اور حوصلہ افزائی کی محرک چھوٹ کیوں رکھی ہے!
دستیاب اعداد وشمارات کے تناظرمیں تجزیہ کیاجائے تو جموںوکشمیر میںبحیثیت مجموعی روز ایک اغوا، ایک ہراسانی اور تشدد، ایک عصمت دری کا معاملہ ریکارڈ کیا جارہاہے۔ بے شک قوانین موجود ہیں، مشینری بھی کل پرزوں کی شکل وصورت میںدستیاب ہے لیکن اس کے باوجود خواتین کے خلاف مجرمانہ تشدد اپنی رفتار سے جاری ہے۔ اغوا کاری کے تعلق سے جوڈاٹا دستیاب ہے سرسری طور سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کے ۳؍ واقعات ۲۴؍ گھنٹے میں پیش آتے ہیں۔
ان معاملات کے علاوہ گھریلو سطح پر چار دیواریوںکے اندر بھی عورت کو مختلف معاملات کے تعلق سے تشدد کا سامنا ہے۔ جہیز اور ناجائز مراعات اور تحائف کیلئے دبائو، وقت پر اولاد کا نہ ہونا، مسلسل دو لڑکیوں کی پیدائش، لالچ اور بدمستی کے نشہ میں ہراسانی اور تنگ طلبی، طلاق اور قتل اب بدنما دھبہ خیال نہیں کیاجارہاہے۔
دُنیا کا کوئی مذہب، ماسوائے چند ایک کے جو رشتوں تک کے تقدس اور حرمت کے پابند نہیں بلکہ ان کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ ایسے معاشروں کے تعلق سے وابستہ لوگ حیوانوں اور حیوانیت کی زندگی بسر کررہے ہیں، خواتین کے خلاف تشدد اور ہراسانی کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی ایسے رویہ اور بدمستی کی اجازت دیتا ہے۔ اسلامی طرز حیات کے حوالہ سے بات کی جائے تو تعلیمات واضح ہیں، قرآن واضح ہے ، احادیث واضح ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے پیغمبر ﷺ نے لڑکیوں کو اپنی اولاد کا درجہ اور مرتبہ تفویض کیا ہے جبکہ اولاد کے لئے ماں کے قدموں کو جنت قراردیاگیاہے۔
یہ محض چند اشارے ہیں، جبکہ اسلامی تعلیمات میں اس حوالہ سے خزانہ دستیاب ہے ۔بہرحال ایسے معاملات میں ملوث اگر کوئی خود کو مسلمان اوراسلام کا پیروکار مانتا ہے وہ قرآن کریم، احادیث اور دوسری تعلیمات کی روشنی میں خود کو اپنے کردار وعمل، طرزمعاشرت، ذمہ داری اور اپروچ کے حوالہ سے اپنا محاسبہ کرے اور اپنی حیثیت کا تعین کرے۔
بہرکیف نچوڑ یہ ہے کہ قوانین چاہئے نرم ہوں، ان میںکوئی سقم ہویا سخت گیرانہ ہو جرائم کی روک تھام اور سزا جزا کے حوالہ سے زیادہ موثر اور کارگر تصور نہیں کئے جاتے بلکہ مختلف نوعیت کے جرائم کی روک تھام معاشرتی آداب ، معاشرے کی طرززندگی ، عادات و اطوار، رسومات اور روایات ، فکر وعمل کی گہرائی، مثبت سوچ، اخوت اور ایک دوسرے کے احترام کے زینوں پر قدم رکھ کر ہی ممکن ہے۔ قوانین کے تحت چند برس کی جیل کافی نہیں، سماجی معاشرتی سطح پر بدلائو لانے کیلئے ضروری ہے کہ سارا معاشرہ اپنے طرززندگی کیلئے کچھ معیارات اور پیمانے مقرر کرے اور روزمرہ کے معاملات سے عہدہ برآں ہونے کی سمت میں حدود کا تعین کرے۔ پردہ اور پردے کا اہتمام روک تھام کی سمت میں پہلا اور بُنیادی زینہ ہے۔ پردہ کی تنقید اور مخالفت کرنے والے جاہل اور جہالت کی صف میںشمار کئے جاسکتے ہیں۔