سچ ہی تو سکینہ جی… وزیر تعلیم سکینہ ایتو جی کہہ رہی ہیں کہ اسکولی اوقات کار کا تعین کون سا آسمانی صحیفہ ہے جس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے… جسے بدلا نہیںجا سکتا ہے … اسے بدلا جا سکتا ہے اور… اور اگر ضرورت محسوس ہو ئی تو اسے یقینا بدلا جائیگا … یہ ہم نہیں بلکہ سکینہ جی کہہ رہی ہیں… یہ کہہ رہی ہیں کہ… کہ یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں… اگر اس تجربے میں ناکامی ہاتھ آتی ہے تو… تو نیا تجربہ کریں گے… نیا تجربہ کیا جائیگا اور… اور اس لئے کیا جائیگا کہ ان تجربوں سے کون سا ان کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے… اس سے ان کی معمول کی زندگی میں کون سا خلل پڑ رہا ہے… خلل… خلل تو چھوٹے چھوٹے بچوں کی نیند پر پڑرہا ہے… ان کے والدین کے معمولات پر پڑرہا ہے… وہ متاثر ہو رہے ہیں… ان کے روز مرہ کے شیڈول کا تہہ و بالاہو رہا ہے … اساتذہ کے معمولات اثر انداز ہو رہے ہیں کہ پہلے انہیں آف لائن اور پھر آن لائن پڑھانا پڑرہا ہے … آن لائن اور آف لائن کا یہ ہائبرڈ ماڈل جس سے ایک بچہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا … لیکن… لیکن صاحب آپ فکر نا کیجئے کہ ہماری وزیر تعلیم بڑی نرم دل خاتون ہیں… ان میں لچک ہی لچک ہے … اس لئے اگر یہ تجربہ ناکام ہو جاتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ انہیں اس تجربے کو روکنے اور ایک نیا تجربہ شروع کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی … بالکل بھی نہیں لگے گی … اور جس طرح سکینہ جی بات کررہی تھی ہمیں یقین ہے کہ… کہ وہ دن دور نہیں جب موصوفہ اس تجربے کو بیچ راستے روک کر کوئی نیا تجرنہ شروع کریں گی اور … اور ویسے بھی کشمیر کو ایک تجربہ گاہ ہی تو سمجھاجاتا ہے… یہاں آئے روز تجربے کئے جاتے ہیں… بڑے بڑے تجربے ‘ایسے تجربے جو کہیں اور نہیں کئے جا تے ہیں… کسی اور جگہ نہیں ہو سکتے ہیں… بالکل بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر وزیر تعلیم نے بھی ایک عدد تجربہ کیا ہے تو… تو اس میں ان کی کوئی خطا نہیں ہے… کچھ دنوں بعد اسے بھی بدل دیں گے… ایک نیا اوقات کار لائیں گے کہ… کہ اوقات کار تھوڑے ہی نا کوئی آسمانی صحیفہ ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا ہے… جس میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ہے ۔ ہے نا؟