سرینگر//
مرکزی وزیر برائے ماہی پروری ، مویشی پالن اور ڈیری راجیورنجن سنگھ اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج سرینگر سول سیکرٹریٹ میں جموں و کشمیر کے مویشی پالن اور ماہی پروری کے شعبوں کی ایک اعلیٰ سطحی جائزہ میٹنگ کی مشترکہ طور پر صدارت کی۔
مرکزی وزیر نے میٹنگ میں جموں و کشمیر کے مویشی اور ماہی پروری کے شعبوں میں بے پناہ پوشیدہ صلاحیتوں پر زور دیا اور مرکز کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دِلایا۔اُنہوں نے کہا،’’ہم آج یہاں آپ کی بات سننے، آپ کے مسائل سمجھنے اور مل کر کام کرنے کے لئے موجود ہیں۔ جہاں امکانات ہوں، وہاں عمل ہونا چاہیے۔‘‘
سنگھ نے مرکز اور حکومت جموں و کشمیر کے مابین مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ موجودہ صلاحیتوں کو نتائج میں بدلا جا سکے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ دیہی خوشحالی تبھی ممکن ہے جب اِقتصادی ترقی دیرپا معاش کے ذریعے نچلی سطح تک پہنچے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ نوجوانوں کومائیکرو او رچھوٹے پیمانے پر لائیو سٹاک اورمویشی پالن اور ماہی پروری کے کاروباروں میں داخل ہونے کی ترغیب دی جائے کیو ں کہ یہ روزگار اور جامع ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
سنگھ نے بتایا کہ نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ (این ڈِی ڈِی بی) اور نیشنل فشریز ڈیولپمنٹ بورڈ (این ایف ڈی بی ) جیسے قومی اداروں کو شامل کرتے ہوئے ایک تفصیلی منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد مضبوط بنیادی ڈھانچہ تیار کرنا اور کسانوں کو مارکیٹ سے جوڑنا ہے۔
مرکزی وزیر نے حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں ایک ایکسپورٹرز کانفرنس اور پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ کاروباری مواقع بڑھائے جا سکیں۔
سنگھ نے ڈیری کاموں کو غیر منظم شعبے سے منظم شعبے کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کوآپریٹیوز اور فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف پی اوز) کی اہمیت پر زور دیا۔
مرکزی وزیر نے وارانسی کی ڈیری کوآپریٹیوز کی مثال دی جہاں دودھ کی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی اور مویشیوں کے فضلے سے بھی اضافی آمدنی حاصل کی گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے حکام کو چاہیے کہ وہ ایسے کامیاب ماڈلز کا مطالعہ کریں اور اُنہیں اپنائیں۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مرکزی وزیر کے دورے کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایسے مشترکہ جائزے مقامی ترجیحات کی شناخت اور قومی بہترین طریقوں سے سیکھنے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بڑے صنعتی منصوبے ہمیشہ دیرپا نتائج نہیں دے پاتے جبکہ اصلی موقع زراعت، باغبانی، مویشی پالن، ماہی پروری اور سیاحت جیسے روایتی شعبوں کو مضبوط بنانے میں ہے۔ اُنہوں نے کہا،’’ہماری طاقت انہی شعبوں میں ہے ۔ ہمیں ان پر کام کرنا چاہیے جو جموں و کشمیر کی جڑیں ہیں۔‘‘
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ جموں و کشمیر بھارت کی ۹۰ فیصد ٹراؤٹ پیدا کرتا ہے لیکن اس شعبے میں منظم پروسسنگ اور ویلیو ایڈیشن کا فقدان ہے۔ اِسی طرحگوشت کی زیادہ کھپت کے باوجود مٹن کا بڑا حصہ باہر سے آتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ملکی طلب پوری کرنے میں خود کفالت آمدنی بڑھانے اور درآمدات کم کرنے میں مدد دے گی۔ اُنہوں نے ڈیری سیکٹر میں کوآپریٹیوز کے بتدریج کے بارے میں بھی بات کی اور یقین دِلایا کہ حکومت کوآپریٹیو ثقافت کو بحال کرنے اور دودھ فراہم کنندگان کو منظم پروسسنگ نیٹ ورک سے جوڑنے کے لئے پُرعزم ہے۔
وزیر اعلیٰ نے جامع زرعی ترقیاتی پروگرام ( ایچ اے ڈی پی)کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کا مقصد تیل والی فصلوں کی پیداوار، چارہ، ڈیری، مٹن اور ماہی پروری کے اہم خلا کو دور کرنا ہے۔ اُنہوں نے مرکزی حکومت کی حمایت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جائزہ کے دوران دی گئی تمام قیمتی تجاویز کو سنجیدگی اور جلد از جلدعملایا جائے گا۔
اِس موقعہ پر مرکزی وزیر اور وزیر اعلیٰ نے ستواری جموں میں ۵۰ہزار لیٹریومیہ الٹرا ہائی ٹمپریچر( یو ایچ ٹی) مِلک پلانٹ کابذریعہ ورچیول موڈ اِفتتاح کیا اور ترقی پسند ڈیری کسانوں سے بات چیت کی جنہوں نے کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے ذریعے آمدنی میں بہتری اور منظم خریداری کے عمل کے اَپنے تجربات کا اشتراک کیا۔
اِس سے قبل پرنسپل سیکرٹری شیلندر کمار نے مویشی پالن اور ماہی پروری کے شعبوں کی کارکردگی پر تفصیلی پرزنٹیشن دی جس میں بتایا گیا کہ یہ شعبے جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں۱۲ہزار۶۳۴ کروڑ روپے (۲۵ء۶ فیصد) کا حصہ اَدا کرتے ہیں۔ مویشیوں کی تعداد میں۵۴ء۲۴لاکھ مویشی، ۳۱ لاکھ بھیڑ، ۱۵ لاکھ بکریاں اور ۷۳ لاکھ بیک یارڈ پولٹری شامل ہیں جبکہ سالانہ دودھ کی پیداوار ۲۸۷۵ ہزار میٹرک ٹن ہے اور ٹراوٹ کی پیداوار قومی سطح پر ۹۰ فیصد بنتی ہے۔
پرزنٹیشن میں قومی پروگراموں کی کامیابیوں کا ذکر کیا گیا جیسے نیشنل لائیوسٹاک مشن کے تحت۹ء۲ لاکھ جانوروں کا بیمہ، بھیڑوں کے اے آئی سینٹروں کا قیام، جانوروں کی صحت اور بیماریوں کے کنٹرول کے لئے ویکسی نیشن مہمات اور ۵۰ موبائل ویٹرنری یونٹوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔میٹنگ میں بتایا گیا کہ ،این اے ڈی سی پی کے تحت۹۶ لاکھ ویکسینیشنز مکمل کی گئی ہیں اور راشٹریہ گوکل مشن نے اے آئی خدمات کو وسعت دی اور۱۵۰۰ سے زائد ایم اے آئی ٹی آر آئیز کو تربیت دی ہے۔ پی ایم ایم ایس وائی نے آبی زراعت کے بنیادی ڈھانچے، آرائشی ماہی پروری اور آر اے ایس یونٹوں کی مدد کی جس سے تقریباً ۸۰ہزار اَفراد مستفید ہورہے ہیں۔
نیشنل پروگرام فار ڈیری ڈیولپمنٹ کے تحت جے کے ایم پی سی ایل۲۶۔۲۰۲۵ ء تک ۵۰۰ کروڑ روپے کے کاروباری ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دو نئے دودھ کے پلانٹوں۱۰ء۲۵۸ کروڑ روپے کی لاگت سے زیر تعمیر ہیں۔ ۳۳ء۱۱ لاکھ کسان کریڈٹ کارڈز جاری کئے جا چکے ہیںجن میں سے۴۶ء۲لاکھ مویشی پالن اور ماہی پروری کے لئے مخصوص ہیں۔ اے ایچ آئی ڈی ایف نے ۷۳ فیصد سکیموں کی منظوری حاصل کی ہے جس سے ڈیری اور پولٹری انفراسٹرکچر میں نجی سرمایہ کاری ممکن ہوئی ہے۔
بتایا گیا کہ ۵۰۱۳کروڑ روپے کے جامع زرعی ترقیاتی پروگرام میں سے ۱۳۶۴ کروڑ روپے مویشی پالن اور ماہی پروری کے لئے مخصوص ہیں جس کا مقصد دودھ، مٹن اور انڈوں میں خود کفالت حاصل کرنا ہے۔زائد از ۱۸۰۰ پشو سکھیوں کو تعینات کیا جا چکا ہے اور ۵۰۰ہائیڈروپونک چارے کے یونٹ قائم کئے جا رہے ہیں تاکہ سبز چارہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
مزید بتایا گیا ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے کسان ساتھی پورٹل، دکش کسان ایل ایم ایس اور آؤٹ پٹ ٹریکنگ ایپ جیسے پلیٹ فارموںپر کام جاری ہے۔ زائد اَز۲۰۰۰ کسان خدمت گھروں کا قیام عمل میں ہے تاکہ دیہی سطح پر زرعی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
محکمے کی اصلاحاتی کوششوں نے قومی سطح پر شناخت حاصل کی ہے جس میں ایس کے او سی ایچ گولڈ ایوارڈ، انوویشن لیڈرشپ ایوارڈ اور ۲۰۲۴ ء کیلئے بہترین یوٹی برائے ماہی پروری کا ایوارڈ شامل ہیں۔