یقینا جسے اللہ رکھے ‘ اسے کون چکھے …اور یہ ہم سب نے دیکھا … اپنی آنکھوں سے دیکھا …احمد آباد میں دیکھا ۔وشواش رام رمیش کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا کہ … کہ کیسے وہ بچ گیا‘ زندہ بچ گیا… ۲۴۲؍افراد میں سے ایک اکیلا جو بچ گیا… باقی کوئی نہیں بچا ‘ سب کے سب راکھ ہو گئے … اور اس لئے ہو گئے کیوں کہ ان کا وقت مکمل ہو گیا تھا… دنیا میں ان کی مہلت ختم ہو گئی تھی ‘ وشواش کی نہیں … اس لئے یہ اکیلا بچ گیا… لیکن صاحب اکیلا یہ ہی نہیں بچ گیا… یقینا ۴۲۴ افراد میں سے صرف یہ ایک ہی بچ گیا … لیکن اکیلا یہ نہیں بچ گیا کیوں کہ اور بھی کوئی بچ گیا… ایک خاتون بچ گئی ‘ جو ٹریفک جام میں پھنس گئی اور صرف دس منٹ کی تاخیر سے ہوائی اڈے پر پہنچ گئی… عملے سے منت سماجت کی کہ اسے ہوائی جہاز میں بیٹھنے دیا جائے ‘ اس کی کوئی خطا نہیں ہے کہ… کہ یہ واقعی ٹریفک جام میں پھنس گئی تھی‘ لیکن کسی نے اس کی نہیں سنی اور… اور یہ مایوس ہو کر ہوائی اڈے سے اپنے گھر لوٹ گئی … زندہ رہنے کیلئے لوٹ گئی کہ… کہ اس کا بھی وشواش کی طرح ابھی کچھ مزید وقت … کچھ اور مہلت تھی… ہم نے یہ بھی دیکھاکہ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کیسے ۱۲۰۶ ہندسے کو اپنے لئے ’لکی نمبر‘ سمجھتے تھے… چنانچہ ان کی جتنی بھی گاڑیاں تھیں… دو سے لے کر چار پہیوں والیں ‘ ان سب کا نمبر ۱۲۰۶ تھا … لیکن… لیکن ان کی مہلت … دنیا میں انکی مہلت‘ ان کا ٹائم مکمل ہو گیا تھا… سو ۱۲۰۶ کا ہندسہ بھی ان کے کام نہیں آیا اور… اور اسی دن‘ اس تاریخ…۱۲۰۶… یعنی جون(سال کا چھٹواں مہینہ) کے بارہویں دن کو طیارہ حادثے میں ان کی موت ہو گئی …۱۲۰۶ ؍ان کی موت کا دن بن گیا ۔ موت کا دن ہی نہیں بلکہ وہ لمحہ بھی متعین ہے … اور اس لمحے سے پہلے اور نہ بعد میں موت آئیگی … اپنے مقررہ وقت پر آئیگی… لیکن وہ مقررہ وقت کب ہو گا … یہ کوئی نہیں جانتا ہے… بالکل بھی نہیں جانتا ہے… یہ ۲۴۲؍افراد بھی نہیں جانتے تھے … سبھی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے… لیکن ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا… بالکل بھی خبر نہیں تھی… کہ … کہ یہ جہاز انہیں جس منزل تک پہنچائیگا وہ ان کی آخری اور حمتی منزل ہو گی… موت ہو گی ۔ ہے نا؟