سرینگر//
جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر ‘منوج سنہا نے ہفتہ کے روز کہا کہ بے گناہوں کا خون بہانا مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ’دہشت گردی کے آقاؤں‘ اور ’تنازعات کے صنعت کاروں‘ کیلئے سب سے بڑا کاروبار بن گیا ہے۔
سنہا نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں پولیس، سکیورٹی فورسز اور انتظامیہ نے عوام کی حمایت سے جموں کشمیر کو اس مرحلے سے نکالنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے، لیکن ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔
ایل جی نے کہا کہ میں ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بے گناہوں کا قتل دہشت گردی کے آقاؤں اور تنازعات سے نمٹنے والوں کا سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے۔
ایل جی نے یہاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات کے صنعت کاروں نے (جموں و کشمیر میں) دہشت گردی کے ارد گرد ایک بہت بڑا ماحولیاتی نظام تشکیل دیا ہے۔
سنہا نے کہا’’اب بھی کچھ تنازعات کے کاروباری افراد فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسے کسی بھی شخص کو (دوبارہ ابھرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں نے ان کے مذموم عزائم کو سمجھنا شروع کر دیا ہے‘‘۔
ایل جی نے تقریب میں شرکت کرنے والے صوفی اسکالرز سے اپیل کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کے’تنازعات کے کاروباریوں‘ کے لئے معاشرے میں کوئی جگہ نہ ہو۔
سنہا نے کہا کہ میں صوفی علماء سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ نوجوانوں میں صوفی ازم کو مقبول بنانے کے لئے ایک طویل مدتی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انتہا پسند نظریات کو لوگوں میں پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے۔
ایل جی نے کہا کہ اگر اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے صوفی ازم کے نظریات کو جدید بنانے کی ضرورت ہے تو اس پر کام کرنا ضروری ہے۔
سنہا نے مزید کہا کہ ہمیں نئے ذرائع سے صوفی ازم کے پیغام کو نوجوانوں تک پہنچانا ہے۔
سنہا کا کہنا تھا کہ صوفی تعلیمات سے انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوفی ازم سماج میں قیام امن اور ہم آہنگی کا سب سے طاقتور وسیلہ ہے ۔
ایل جی نے کہا’’صوفی ازم سماج میں قیام امن اور ہم آہنگی کا طاقتور ترین وسیلہ ہے ۔ صوفی ازم کا معنی زندگی بسر کرنے کا طریقہ ہے ، یہ تمام تر کے ساتھ محبت کا بندھن ہے اور خدا کے ساتھ محبت پرمبنی رشتہ استوار کرنے کا عمل ہے ۔ صوفی ازم تفریق کو ختم کرکے دلوں کو جوڑنے کا نام ہے ‘‘۔
سنہا نے کہا’’صوفی ازم اندرونی پاکیزگی، محبت اور خدا کے ساتھ عمیق وابستگی کی تاکید کرتا ہے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’اس کا بنیادی مقصد سماج میں بیداری پیدا کرکے محبت، روا داری اور آپسی ہم آہنگی کو پروان چڑھانا ہے ، اس راستے پر گامزن ہونے سے لوگوں، بلا تفریق مذہب و مسلک، قوم و ملت، کو متحد کیا جا سکتا ہے ‘‘۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ صوفی تعلیمات کسی بھی قسم کے تشدد اور تفریق کو رد کرتی ہیں۔
ایل جی نے کہا’’صوفی تعلیمات انتہا پسندانہ نظریے کا مقابلہ کرتی ہیں اور اس کے شاعری، موسیقی جیسے روحانی روایات سے انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف مشن کو مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
ایل جی نے کہا’’صوفی اِزم معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کی سب سے طاقتور قوت ہے۔ صوفی اِزم ایک طرزِ زندگی ہے جو محبت، وحدت اور خدا سے گہری وابستگی کا نام ہے۔ صوفی اِزم دِلوں کو قریب لانے اور تفریق کو مٹانے کا عظیم فن ہے‘‘۔
سنہا نے کہا کہ صوفی ازم کا حتمی مقصد معاشرے میں بیداری، ہمدردی اور باہمی ربط کو فروغ دینا ہے۔
ایل جی نے کہا’’تصوف باطنی تطہیر، محبت اور خدا کے ساتھ گہرے تعلق پر زور دیتا ہے ۔ اِس راستے پر سفر میں مختلف پس منظر کے لوگوں کو متحد کرنے کی صلاحیت ہے۔‘‘
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ صدیوں سے صوفی اِزم اِنتہا پسند نظریات کے خلا ف ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوا ہے اور تصوف کا بیانیہ اِنتہا پسندانہ پروپیگنڈے کا مؤثر جواب رہا ہے اور کمیونٹی میں اَمن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار اَدا کیا ہے۔
سنہا نے کہا،’’صدیوں سے صوفی اِزم اِنتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط قلعہ رہا ہے۔ صوفی تعلیمات ہر قسم کی تشدد اور امتیاز سلوک کو یکسر مسترد کرتی ہیں۔ ان کی شاعری، موسیقی اور تخلیقی اظہار کی صوفیانہ روایتیں انسدادِ بنیاد پرستی کی کوششوںکو تقویت دیں گی۔‘‘
لیفٹیننٹ گورنر نے محبت، بھائی چارے، اتحاد اور ہم آہنگی کے بندھن کو مضبوط بنانے میں جموں کشمیر کے اولیأ کرام اورسنتوں کے ناقابلِ فراموش خدمات کو یاد کیا۔
ایل جی نے کہا کہ ہمسایہ ملک کے اشارے پر کچھ منافع خور اپنے فائدے کے لئے نوجوانوں کو بنیاد پرست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر نے صوفی ادب اور تعلیم کو فروغ دینے، اور نوجوانوں میں صوفی ازم کو مقبول بنانے کے لئے ایک کثیر الجہتی حکمتِ عملی پر زور دیا۔اُنہوں نے کہا کہ صوفی تعلیمات، موسیقی اور شاعری کو ویڈیوز، پوڈکاسٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔
سنہا نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو صوفی ازم کی ترویج کی مہم سے جوڑنے اور صوفی سکالروں کی رہنمائی میں ایک مینٹورشپ پروگرام شروع کرنے پر زور دیا جہاں صوفی سکالرنوجوانوں کی رہنمائی کریں۔