سرینگر// (ویب ڈیسک)
وزیر اعلیٰ‘ عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ را کے سابق سربراہ‘ اے ایس دلت کتاب لکھنے کے دوران کبھی سچ کا ساتھ نہیں دیتے ہیں ۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ دلت کی نئی کتاب ’دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی‘ کی کل ہو نے والی رسم اجرائی میں نیشنل کانفرنس کے صدر‘ ڈاکٹر فاروق عبداللہ شرکت نہیں کریں گے ۔
جموں میں ایک کتاب کی رسم رونمائی کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے ودران وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ دلت صاحب کی عادت ہے کہ وہ کتاب بیچنے کیلئے سچ کا ساتھ نہیں دیتے ہیں ۔پہلی کتاب میں بھی انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔اس کتاب میں بھی فاروق صاحب کو نیچا دکھانے میں انہوں نے کوئی کثر باقی نہیں رکھ چھوڑ دی ہے ‘‘۔
واضح رہے کہ دلت نے کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ فاروق عبداللہ نجی طور پر دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے حامی تھے ۔
فاروق عبداللہ نے پہلے ہی اس دعوے کو مسترد کرتے ہو ئے اسے را کے سابق سربراہ کی سستی شہرت حاصل کرنے کی سعی قرار دیا ہے ۔
وزیر اعلیٰ نے کہاوہ کہتے ہیں کہ جب اس طرح کے دوست ہوں تو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔چلئے آخر کار فاروق صاحب کو دلت صاحب کی اصلیت کے بارے میں پتہ چل ہی گیا ۔اب دلت صاحب کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ کل جب کتاب کا اجرا ہو گا تو فاروق صاحب ان کے ساتھ کھڑا ہوں گے ۔کیوں کہ فاروق صاحب جھوٹ کا ساتھ نہیں دیں گے ‘‘۔
وزیر اعلی نے کہا کہ اگر محبوبہ جی دلت کی لکھی ہوئی ہر چیز کو تسلیم کرتی ہیں تو دلت صاحب نے ان کے والد کے بارے میں اپنی پہلی کتاب میںجو لکھا ہے‘کیا ہم اس کو سچ مانیں ۔اور اگر ہم اس کو سچ مانتے ہیں تو محبوبہ جی اس چیز کو کیسے لوگوں میں سمجھا پائیں گی‘ اس کا وہ ذرا جواب دیں ‘‘۔
پاکستان کے فوجی سربراہ‘ جنرل عاصم منیر کا کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ قرار دینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ کون سی نئی بات ہے ۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ پاکستان تو اس بات کی رٹ لگائے ہو ئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ۱۹۹۰ کی دہائی میں ایک قرار داد پاس ہوئی تھی جس میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتے ہو ئے اسے خالی کرنے کی بات کہی تھی ۔
وزیر اعلیٰ نے البتہ یہ بھی کہا کہ جہاں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی بات کی جاتی ہے وہاں چین کے پاس جموں کشمیر کا جو حصہ ہے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج ’’ دی لینڈ آف سولز ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب جاری کی ۔
اس پروگرام میں وزیر تعلیم سکینہ ایتو ، جموں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اومیش رائے ، خود نوجوان مصنف اپنے والدین ، دادا دادی ، کنبہ کے ممبروں اور دوستوں نے شرکت کی ۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے لارنیا کو اتنی کم عمری میں ان کی قابل ذکر کامیابی پر مبارکباد پیش کی اور اس کی تعریف کی کہ نوجوان مصنف نے ۱۳ سال کی عمر میں کتاب لکھنا شروع کی ، اس طرح کے گہرے سوالات کی کھوج کی کہ آیا ہم کائنات میں تنہا ہیں یا ہم کسی اور دنیا میں زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے نہ صرف ان امکانات کا تصور کرنے کی ہمت کی بلکہ انہیں ایک داستان کے طور پر بھی ترجمہ کیا ۔ اس عمر میں جب بہت سے لوگ ابھی بھی خود کو دریافت کر رہے ہیں ، انہوں نے ہمیں تخیل اور تجسس سے پیدا ہونے والی کتاب کے ساتھ تحفہ دیا ہے ۔
کتاب کے اجراء میں شرکت کی اپنی وجہ کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا ، میں یہاں ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ لارنیا جیسی کامیابیوں کو منانے کے مستحق ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ قارئین یہ جانیں کہ انہوں نے جو کام انجام دیا ہے وہ واقعی قابل ستائش ہے ۔
عمرعبداللہ نے لارنیا کو نہ صرف اپنے ساتھیوں کیلئے بلکہ بڑی عمر کی نسلوں کیلئے بھی ایک متاثر کن مثال قائم کرنے پر سراہا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے بے حد نظم و ضبط اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے کہ وہ اس کی تخیل کو ان حدود کو عبور کرنے دیں جو معاشرے اکثر مسلط کرتے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے نوجوان نسل کو پڑھنے کو گلے لگانے کی تاکید کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخز کیا کیونکہ یہ نہ صرف نقطہ نظر کو وسیع کرتا ہے بلکہ لارنیا جیسے ابھرتے ہوئے مصنفین کو بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنا اظہار جاری رکھیں اور اپنی کہانیوں کو دنیا کے ساتھ بانٹیں ۔