’میر واعظ کا نظربندی سے رہا ئی کے بعد سے میں نے ان کا کوئی قابل اعتراض بیان نہیں دیکھا ‘
گل مرگ //
جموں کشمیر کے وزیر اعلی‘ عمر عبداللہ نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ مرکز نے ان کی حکومت کے ساتھ ایسی کوئی خفیہ معلومات شیئر نہیں کی ہیں جس کی وجہ سے میر واعظ عمر فاروق کی عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) پر پابندی عائد کی جاسکتی تھی۔
مرکزی حکومت نے منگل کے روز کشمیر کے بااثر عالم دین میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی والی اے اے سی اور شیعہ رہنما مسرور عباس انصاری کی قیادت والی آئی ایم پر مبینہ طور پر ملک مخالف سرگرمیوں، دہشت گردی کی حمایت اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کو ہوا دینے کے الزام میں پانچ سال کیلئے پابندی عائد کردی تھی۔
وزیر اعلیٰ نے کھیلو انڈیا سرمائی کھیلوں کے پانچویں ایڈیشن کے اختتام کے بعد یہاں نامہ نگاروں کو بتایا ’’مجھے نہیں معلوم کہ اس پابندی کی بنیاد کیا ہے۔ یہ (جموں و کشمیر میں) منتخب حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے اور جس انٹیلی جنس کی بنیاد پر یہ ہوا ہے وہ ہمارے ساتھ شیئر نہیں کی گئی ہے‘‘۔
حالانکہ، عمرعبداللہ نے کہا’’اصولی طور پر، ہم کبھی بھی اس طرح کے فیصلوں کے حق میں نہیں رہے ہیں‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ میر واعظ کو نظربندی سے رہا کیے جانے کے بعد سے میں نے ان کی طرف سے کوئی قابل اعتراض بیان نہیں دیکھا ہے، لیکن ہمیں پابندی کی وجوہات کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ (لیکن) ہم دیکھیں گے کہ مستقبل میں (اس کے بارے میں) کیا کرنا ہے‘‘۔
پی ڈی پی لیڈر محبوبہ مفتی نے چہارشنبہ کے روز اس فیصلے پر نیشنل کانفرنس حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عوام کو منتخب حکومت سے توقعات تھیں کہ وہ ان کی حفاظت کرے گی لیکن اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔
محبوبہ کاکہنا تھا’’اس سے پہلے بی جے پی نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی، یہ ایل جی راج کے تحت کیا گیا تھا اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکے تھے، لیکن ہم نے اپنی آواز اٹھائی۔ آج جب عوام کی حکومت ہے تو زیادہ مظالم ہو رہے ہیں اور حکمراں جماعت خاموش ہے اور کچھ نہیں کر رہی ہے‘‘۔
پی ڈی پی سربراہ نے کہا’’اس طرح کے اقدامات غلط اور غیر معمولی ہیں، لیکن حکمراں جماعت کی خاموشی کی وجہ سے، یہ معمول کی بات معلوم ہوتی ہے‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہ پابندی میر واعظ کی جانب سے گل مرگ میں حال ہی میں منعقد ہونے والے فیشن شو پر تنقید کی وجہ سے لگائی گئی ہے؟ وزیر اعلیٰ نے کہا’’آپ ایسا نہیں کہہ سکتے‘‘۔
رمضان کے روزے کے دوران گلمرگ کے اسکی ریزورٹ میں فیشن شو کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ میر واعظ عمر فاروق نے کہاتھا کہ سیاحت کے فروغ کے نام پر فحاشی برداشت نہیں کی جائے گی۔
بی جے پی کے اس الزام کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ جس ہوٹل میں فیشن شو ہوا وہ ان کے ایک رشتہ دار کا ہے، جموں و کشمیر کے وزیر اعلی نے کہا’’ہاں، یہ ہوٹل میرے ایک رشتہ دار کا ہے، اور میں اس سے انکار نہیں کر رہا ہوں‘‘۔انہوں نے مزید کہا ’’گلمرگ میں دو ہوٹل ہیں جو میرے رشتہ داروں کے ہیں … نیڈوس اور ہائی لینڈ پارک۔ لیکن میں نے اسمبلی میں جو کچھ کہا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کوئی کارروائی کی جائے گی، چیف منسٹر نے کہا، ’’اگر قانون کے خلاف کچھ کیا گیا ہے، تو کارروائی کی جائے گی‘‘۔
کھیلو انڈیا گیمز کا حوالہ دیتے ہوئے عمرعبداللہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ جموں کشمیر کو تمغوں کی فہرست میں سرفہرست تین مقامات میں جگہ نہیں مل سکی۔
عمرعبداللہ نے کہا’’میں فوج، ہماچل پردیش اور لداخ کو مبارکباد دیتا ہوں، لیکن مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ اس ملک میں اسکیئنگ گلمرگ سے شروع ہوئی، لیکن ہم پہلی تین پوزیشنوں پر نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کیلئے بنیادی ڈھانچے اور کوچوں کا انتظام کرنا ہوگا‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس سال ہم اسکیئنگ کیلئے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کریں گے تاکہ اگلے سال چھٹے کھیلو انڈیا گیمز منعقد ہوں تو جموں و کشمیر پہلے تین مقامات پر ہوگا۔
عمرعبداللہ نے گلمرگ میں موسم سرما کے کھیلوں کے لئے ایک سینٹر آف ایکسیلینس کے قیام کے بارے میں مرکزی وزیر منسکھ منڈویا کے اعلان کا بھی خیرمقدم کیا۔انہوں نے کہا’’یہ ایک اچھی بات ہے اور ہم موسم سرما کے کھیلوں کیلئے کچھ بہترین مراکز چاہتے ہیں تاکہ اس سے ہمارے کھلاڑیوں کو فائدہ ہو۔‘‘