جموںوکشمیر بجٹ اجلاس میں اب محض چند دن رہ گئے ہیں۔ البتہ بجٹ سیشن کی تیاریاں پورے آب وتاب اورزور وشور سے جاری ہیں۔ کیوں نہ ہو، اسمبلی کا یہ مجوزہ بجٹ سیشن زائد از ایک دہائی کی تاخیر کے بعد منعقد ہونے جارہاہے۔ ریاست کو یوٹی میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیشن ہے جس میںبجٹ تجاویز کے علاوہ کئی ممبران کی جانب سے مختلف معاملات کے تعلق سے مسودہ بل پیش کئے جارہے ہیں۔
اسمبلی سیکریٹریٹ نے ارکان اسمبلی کیلئے تربیتی سیشن منعقد کئے، سپیکر کی جانب سے انتظامی اور سکیورٹی بندوبست کے حوالہ سے تیاریوں اور انتظامات کا مسلسل جائزہ لیا جاتا رہا جبکہ پریس کے ساتھ بھی کئی ایک معاملات کے حوالہ سے انہیں بریفنگ دی گئی اور چوتھے ستون سے وابستہ افراد کو یقین دلایاگیا کہ اسمبلی کو ریج کیلئے انہیںہر ممکن سہولیت فراہم کی جائیگی۔
انتظامات ، سکیورٹی اور دوسرے معاملات کے تعلق سے تیاریاں اپنی جگہ توقع ہے کہ اسمبلی کا یہ بجٹ سیشن کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز ہونے جارہا ہے البتہ تاریخ ساز نہیں ۔ا سمبلی سیشن کو واقعی تاریخ ساز بنانے کیلئے سٹیک ہولڈروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود کو اس کیلئے تیار کریں اور معاملات کو ایڈریس کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور ذمہ دارانہ کردار بھی ادکریں۔لیکن اس کی توقع نہیں۔ کیونکہ الیکشن کے فورا ً بعد حلف برداری وغیرہ کے حوالہ سے جو مختصر سیشن سرینگرمیں منعقد ہوا وہ کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز رہا، عہد سازنہیں، دھینگا مشتی، شور وشر ابہ، دھکم پیل، طعنہ زنی اور مخالفانہ نعرہ بازی اُس مخصوص اجلاس کا خاصہ رہا۔ کئی اپوزیشن ممبران کو ہنگامہ آرائی کی پاداش میں ایوان سے باہر نکالا گیا۔ اپوزیشن نے حزب اقتدار پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے اور اپنی ہنگامہ آرائی کو جواز بخشنے کی ہرممکن کوشش کی۔
لیکن اس ہنگامہ آرائی اور شو وشرابہ کے باوجود عوام کا کوئی ایک بھی طبقہ متاثر نہیں ہوسکا۔ بلکہ تلخ سچ یہی ہے کہ عوام بحیثیت مجموعی برہم بھی ہوئے اور مایوس بھی۔ا ب نگاہیں متوقع بجٹ سیشن کی طرف مرکوز ہیں۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ ممبران چاہے اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں یا حزب اقتدار سے اجلاس کے دوران ذمہ دارانہ طرز عمل کا دامن پکڑے رہینگے، عوام کو جو سنگین نوعیت کے معاملات درپیش ہیں انہیں ایوان میں پوری سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کریں گے اور ان پر با ت بھی کریں گے اور ان عوامی اہمیت کے معاملات کو اپنی سیاسی انا پرستی کے اندھے گھوڑوں پرسوار ہوکر غیر ذمہ دارانہ طرز کا راستہ اختیار کرنے سے ہر ممکن اجتناب کریںگے۔
بے شک ممبران اپنے معاملات کو ایڈریس کرتے وقت شدت کا مظاہرہ کریں اور زبان کو بھی قوت عطا کرتے رہیں لیکن پارلیمانی آداب کے دائرے میں رہ کر، پارٹیوں سے اپنی وابستگی کے ہوتے اپنے سیاسی نظریات، سیاسی اہداف اور سیاسی تعصب کو حاشیہ پررکھ کر صرف اور صرف عوام کی سوچیں، جنہوںنے اپنی رائے دہندگی کا استعمال کرکے انہیں منڈیٹ تفویض کیا ہے۔ ہنگامہ آرائی، دھینگا مشتی اور شور وشرابہ کا ’دھندہ‘ اختیار کرکے عوام کاکوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ آج تک ہوا ہے۔ ایسا کوئی بھی منظرنامہ جو ایوان کے اندر پیش آتا رہا ہے، وقت گواہ ہے ، کا فائدہ عوام کو نہیں بلکہ حکمران جماعتوں کو ہی ہوتا رہا ہے کیونکہ پھر معاملہ یکطرفہ ہوجاتاہے ۔ عوام کو توقع ہے کہ اب کی بار ایسے کسی راستے کو اختیارکرنے یا زندگی عطاکرنے کی کوشش نہیں کی جائیگی۔
لیکن آثار اور تیور کچھ اور ہی نظرآرہے ہیں۔ اپوزیشن باالخصوص جموں نشین اپوزیشن کا بجٹ اجلاس کے حوالہ سے اپنا مخصوص ایجنڈا ہے ، کشمیرنشین اپوزیشن پی ڈی پی اور سجاد غنی لون کا اپنا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے۔ اس حوالہ سے ہر ایک نے اپنی اپنی کمانوں سے پہلے ہی تیر چلا رکھے ہیں جبکہ سیشن کے دوران یہ تیراندازی شدت اختیار کرسکتی ہے۔
اسمبلی اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی کیلئے کئی ایک بُنیادیں اپوزیشن پہلے ہی ڈال چکی ہیں انہیں اب آگے بڑھانے کی تیاری ہے۔ اگر چہ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بجٹ کی تیاری کے حوالہ سے ضلع سطح پر منتخبہ ممبران اسمبلی کاروباریوں‘ تاجروں اور دوسرے سٹیک ہولڈروں سے ایک طویل مشاورت کرچکے ہیں، جس دوران ممبران نے مختلف نوعیت کے عوامی اشوز کوترجیح دی اور وزیراعلیٰ سے منسوب یہ بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ بجٹ تجاویز میں ممبران کی طرف سے پیش تجاویز اور ترجیحات کو ترجیح دی جائیگی جبکہ دور اِفتادہ اور پسماندہ خطوںسے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کیلئے زائد فنڈز مخصوص کئے جائیں گے، سٹیک ہولڈر اور ممبران اسمبلی بھی اس مشاورت کے حوالہ سے مطمئن ہیں لیکن ایوان میں۔ بجٹ تجاویز پیش کئے جانے کے بعد ممبران کا رویہ اور اپروچ کیا ہوگا اس کا انتظار رہے گا۔
کچھ ممبران نے ایوان میں غوروخوض کیلئے جو مسودے پیش کئے ہیں ان مسودوں کے حوالوں سے قبل از وقت تشہری عمل کو اسمبلی سپیکر برہمی اور ناراضگی کا برملا اظہار کرچکے ہیں اور مذکورہ ممبران کی اس تشہیری مہم کو پارلیمانی روایات آداب اور طرز عمل کی ضد قرار دے کر ممبران کو انتباہ دیا ہے کہ وہ ایسی کوششوں سے گریز کیا کریں لیکن اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسمبلی کے سپیکر کے اس حکم نامہ کو ’’مارشل لاء اور سنسر شپ‘‘ کا نفاذ قراردیاہے۔
ظاہر ہے بل کے مسودے پیش کرنے اوران پر قبل از وقت تشہری مہم چلانے والوں اور اسمبلی انتظامیہ کے درمیان ان اشوز پر کچھ نہ کچھ لے دے ضرور ہوگی، ان مسودوں کو جائزہ کمیٹیوں کی مشاورت کیلئے ریفر کیاجائے گا یا مسترد یا اور کسی بہانے التواء میںرکھنے کا کوئی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ معلو م نہیں البتہ جو کچھ بھی ہوگا ہنگامہ خیز ہی ہونے جارہاہے۔ کیونکہ معاملات سیاسی ایجنڈا سے تعلق رکھتے ہیں ، پھر پارٹیوں کی عوامی درباروں میں سوال دبدبہ اور سند قبولیت سے بھی جڑا ہوا ہے لہٰذا چپ رہنے یا شکست قبول کرنے کا کوئی سوال نہیں ۔
ذاتی طور سے وزیراعلیٰ کیلئے ایوان ’’ٹف ٹائم‘‘ کا حامل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ نشانے پر ان کی حکومت سے کہیں زیادہ ان کی ذات ہوگی ۔ بحیثیت مجموعی آرپار کے۳۳ ؍اپوزیشن ممبران ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔