زبان کوئی بھی ہو وہ مخلوق کے درمیان رابطہ کا واحد اور ناقابل متبادل ذریعہ ہے لیکن جب کسی زبان کو لسانی، تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی جارحیت یا بطور ہتھیار کے مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نہ صرف معاشرتی سطح پر مختلف نوعیت کے فساد کی بُنیاد پڑجاتی ہے بلکہ سکون بھی برباد ہوجاتا ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے پہنچ رہے نقصانات الگ سے ہیں۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد سے ہی زبانوں کا جھگڑا شروع ہوا۔ کروڑوں پر مشتمل آبادی کے مختلف طبقے ایک دوسرے سے مختلف زبانیں بول، لکھ اور سمجھ رہے ہیں ان زبانوں میں ہر طبقہ اپنی مادری زبان کو ترجیح دے رہا ہے البتہ رابطہ اور روزمرہ معاملات اور کاروبار کے حوالہ سے کچھ دوسری زبانوں کو بھی اپنا رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ باالخصوص مخصوص فکر کے حامل سیاستدان اس کو قبول نہیں کررہے ہیں وہ اپنی پسند کی زبان کو دوسروں پر لسانی جارحیت کا سہارا لے کر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی یہی ہوتارہا اور آج کی تاریخ میں بھی یہی کیا جارہا ہے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہندی زبان ملک کی بہت پرانی اور زیادہ بولنے پڑھنے اور لکھنے والی زبانوں میں شامل ہے۔ عددی حجم کے حوالہ سے دیکھاجائے تو اس وقت ملک کے طول وارض میں ۵۲۸؍ ملین کے قریب آبادی ہندی میں بات کررہی ہے یا روزمرہ معمولات کو انجام دے رہی ہے۔ لیکن غور سے دیکھاجائے تو ملک میں بولی، سمجھی، لکھی جارہی پہلی دس ز بانوں کی مجموعی آبادی بھی کم وبیش اُسی عدد سے مماثلت رکھتی ہے۔ ہندی کے بعد عددی اعتبار سے بنگالی زبان کو درجہ حاصل ہے جبکہ تیسرے نمبر پر مراٹھی (۸۳؍ملین) ہے۔ اس تعلق سے اُردو زبان سمجھنے بولنے اور لکھنے والوں کی تعداد بھی ۵۰ ؍ملین بتائی جاتی ہے ۔ گجراتی ۵۵؍ ملین، تامل۶۹؍ ملین، تیلگو ۸۱؍ ملین ، کنڈ۴۳؍ملین ، اوڈیہ ۳۷؍ اور ملیالم ۳۴؍ ملین ہے۔
لیکن اُردو نشانے پر ہے۔ اس کو ختم کرنے کیلئے لسانی اور تہذیبی جارحیت سے عبارت مختلف حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ کبھی اس زبان کو پاکستان کی زبان قرار دیاجارہاہے ، کبھی اسلاموفوبیا کے جنون میںمبتلا سیاستدان اور ان کے ہر کارے اردو کو اسلام سے جوڈرہے ہیں تو ہندوستان پر زمانہ قدیم میں بیرونی حملہ آوروں سے منسوب کررہے ہیں۔ اُردو کے تعلق سے یہ زہریلا پروپیگنڈہ مسلسل طور سے اس لئے اور اس نیت سے کیا جارہاہے کہ یہ زبان ملک کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے لیکن عقل کے ان اندھوں سے یہ تجزیہ بھی نہیں ہوپارہا ہے کہ ملک میںاگر مسلمان آبادی کا عدد تقریباً ۲۲؍ کروڑ ہے تو اُردو زبان اگر مخصوص طور سے مسلمانوں کی ہی زبان ہوتی تو اُردو زبان کو بولنے والوں کی عددی برتری بھی اتنی ہی ہونی چاہئے تھی لیکن صرف ۵؍ کروڑ کیوں؟ لیکن ان اندھے لسانی جارحیت کے علمبرداروں کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے جبکہ مسلمان ملک کے بہت سارے خطوں اور علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ظاہر ہے فطرتی تقاضوں کے اعتبار سے وہ وہی بولی بول رہے ہیں جو خطے کے تعلق سے دوسرے مذاہب اور فرقوں سے وابستگی رکھنے والے بول اور سمجھ رہے ہیں۔
ملک کی آبادی کے مختلف طبقوں کو صرف لسانی جارحیت کا ہی سامنا نہیں ہے بلکہ انہیں زندگی کے دوسرے شعبوں باالخصوص طرز معاشرت، رہن سہن، ملبوسات ، طرز تعلیم، کھانے پینے، طرز عبارت اور طرز عقیدت ، کاروبار اور دلین دین ایسے کئی معاملات کے حوالہ سے بھی نشانہ بنایاجارہاہے۔ حالیہ چند برسوں کے دوران ان مختلف انواع اقسام کی جارحیتوں میںبتدریج اضافہ دیکھا اور نوٹ کیاجارہاہے۔اس حوالہ سے اُترپردیش ، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش،گجرات، کرناٹک ، ایسی کچھ ریاستیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اُتر پردیش کے وزیراعلیٰ سے منسوب ابھی چند روز قبل کے ان کے یو پی اسمبلی سے خطاب کے دوران اُردو زبان کے تعلق سے نفرت آمیز اور لسانی جارحانہ عزائم سے عبارت بیان کا حوالہ دیاجارہاہے اور روادار قوتوں کی جانب سے اس بیان کو شرمناک اور بدترین سیاسی نما لسانی جارحیت کا بدترین امتزاج تصور کیا جارہاہے۔
کیا واقعی اُردو مسلمانوں اور مسلمانوں کے حوالوں سے اسلامی زبا ن ہے؟ یہ پروپیگنڈہ مخصوص اور مذموم عزائم کی از خود عکاسی کررہاہے ۔ یہ وہ زبان ہے جسے سرزمین ہندوستان نے جنم دیا، اپنی آغوش میں پرورش کی اور وقت آنے پر اسی زبان کا سہارا لے کر ہندوستان کی آبادی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی، اسی اُردو میں وطن کے نغمے گائے گئے اور اسی زبان کو جدوجہد آزادی کے سرفروشوں نے نہ صرف آپس میں بطور رابطہ کے استعمال کیا بلکہ اُس جنگ آزادی میں اُردو نے جو رول ادا کیا وہ تاریخ کا ان مٹ حصہ ہے اور جس تاریخی رول کو یوگی اور اس کے ہمشکل اور دوسرے ہم عصر اپنی جارحیت کے باوجود مٹانہیں سکتے۔
اُردو اور کشمیری کے ساتھ ساتھ جموںوکشمیر میں دوسری بولی، سمجھی اور لکھی جارہی زبانوں کے تحفظ کے بارے میں جن خدشات کا اظہار فاروق عبداللہ نے بھی کیا ہے وہ یونہی نہیں ہے بلکہ زمینی حقیقت یہی ہے اگر چہ تنظیم نو ایکٹ میںپانچ بولی اور سمجھی جارہی زبانوں کا اعتراف موجود ہے لیکن صرف ایک زبان … ہندی کو روزمرہ کا موں اور معمولات کے حوالہ سے ترجیح دی جارہی ہے۔ کشمیری ،ڈوگری، اُردو،پنجابی اور دیگر کچھ زبانوں کو پشت از دیوار کرنے کی برابر کوششیں ہورہی ہیں۔
اُردو اور دیگر مادری زبانوں کو نشانہ بنانے والی قوتوں کی ہرگز حوصلہ افزائی نہ ہوتی اگر اوسط شہری زبانوں کے استعمال اور ان کی آبیاری کے حوالہ سے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کا راستہ اختیار نہ کرتے ۔ اُردو کو سب سے زیادہ نقصان ان ہاتھوں سے پہنچ رہاہے جو مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ اردو کو اپنے سے کہیں زیادہ عزیز رکھتے ہیں لیکن یہ صرف دعویٰ ہے حقیقت نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہی ہاتھ اصل میں اُردو کو ناقابل تلافی نقصانات سے ہم کنار کرتے جارہے ہیں۔ اُردو کی املا کے ساتھ جو حشر کیاجارہاہے اب وہ بیان اور کلام سے بہت دور ہے۔ ہ، ھ، ح، ز، د، ڈ ، ع، غ ، خ اورکھ کی کوئی بھی فرق یا تمیز لکھنے اور پڑھنے کے حوالہ سے اب باقی نہیں رہی۔
اُردو زبان میں خبروں کے بلٹن کی نشریات کے دعویداروں کو ہی دیکھیٔ اور سمجھنے کی تھوڑی سی کوشش کی جائے تو ان بلٹنوں میں اُردو کے نام پر املا کا جو حشر کیاجارہاہے ہر حساس آنکھ اشکبار تو ہے لیکن بدقسمتی سے لب خاموش ہیں۔ اِملا کے ساتھ سب سے زیادہ حشر تو پاکستان میں ہورہاہے جس پاکستان سے اس زبان کو مخصوص کیاجارہاہے۔اور جس پاکستان نے اُردو زبان کو بطور اپنی سرکاری زبان کے اختیار کررکھا ہے۔