سرینگر/۱۳فروری
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ میرا ماننا ہے کہ اب وقت آگیا ہے‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے اس ہفتے کے اوائل میں دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا تھا، عمرعبداللہ نے کہا کہ ریاست کا درجہ بحال کرنے کا عمل جاری ہے اور اسے فوری طور پر منطقی انجام تک لے جانے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو برقرار رکھا تو اس نے ریاست کا درجہ جلد از جلد بحال کرنے کا عام ذکر کیا۔
مرکز نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا اور 2019 میں سابق ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دوبارہ منظم کیا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”اس پر جتنی جلدی ممکن ہو بات ہوئی اور یہ ایک سال پہلے کی بات ہے“۔
پی ٹی آئی ویڈیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں عبداللہ نے کہا ” ہمیں لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے“۔
وزیر اعلی نے یہ بھی کہا کہ ان کی وزیر داخلہ کے ساتھ ’بہت اچھی بات چیت‘ ہوئی۔ ”یہ ایک جاری بات چیت کا حصہ ہے اور مجھے بہت امید ہے کہ جلد ہی ریاست کا درجہ بحال ہوجائے گا“۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دہلی اور جموں و کشمیر کے درمیان فاصلہ کم ہوا ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بعض اوقات کچھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن سے فرق بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے شمالی کشمیر کے سوپور اور جموں کے کٹھوعہ ضلع کے بلاور میں حال ہی میں دو افراد کے قتل کی طرف اشارہ کیا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”….دونوں واقعات افسوسناک تھے اور مجھے لگتا ہے کہ انہیں روکا جا سکتا تھا۔ پہلے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ اگر کسی کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے تو قانون کو اپنا کام کرنا ہوگا“۔
بلاور میں عسکریت پسندی میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک 26 سالہ شخص نے 4 فروری کو مبینہ طور پر ’پولیس ہراسانی‘ کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ اس کے ایک دن بعد ضلع بارہمولہ کے سوپور میں ایک چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر رکنے سے انکار کرنے پر ایک ٹرک ڈرائیور کی فوج کی فائرنگ میں موت ہو گئی تھی۔
دونوں اموات کے بعد وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے ان لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کا خطرہ ہے جنہیں ہمیں حالات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے اپنے ساتھ لے جانے کی ضرورت ہے۔
عمرعبداللہ نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اگرچہ سیکورٹی اور پولیس منتخب مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حکومت کی براہ راست ذمہ داری نہیں ہے ، پھر بھی یہ یقینی بنانا ان کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا”جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے، حکومت موجود ہے۔ وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ حکومت میں کون ذمہ دار ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ وزیر داخلہ کے ساتھ میری بات چیت کا ایک بڑا حصہ تھا“۔
عمرعبداللہ نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی جانب سے ان کی حکومت پر تنقید کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف حالیہ انتخابی شکست پر ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا”مجھے امید نہیں ہے کہ وہ ہماری تعریف کریں گے“۔ انہوں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ عام طور پر اس طرح کے تبصروں پر رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔
اپنی انتظامیہ کے 100 دن سے تجاوز کر چکے ہیں، اس پر نظر ڈالتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا”کسی نے بھی 100 دن تک ہمیں ووٹ نہیں دیا۔ لوگوں نے ہمیں پانچ سال تک ووٹ دیا، اس لیے ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر پر حکمرانی کرنا مشکل تھا “۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ”جموں و کشمیر پر حکمرانی کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا ہے۔ 2009 اور 2015 کے درمیان یہ آسان نہیں تھا۔اب یہ آسان نہیں ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ جموں کشمیر کا کوئی بھی وزیر اعلیٰ یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی مدت کار آسان تھی۔ ہر کسی کو کسی نہ کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں، یہ ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ہم ایک یونین ٹیریٹری ہیں۔ ہم سیکھ رہے ہیں، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی ان حالات میں کام کرنا سیکھا ہے“۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،عمر عبداللہ جو نیشنل کانفرنس کے نائب صدر بھی ہیں، نے مزاحیہ انداز میں جواب دیا اور سیاسی دباو¿ کے بجائے موسم سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے بارے میں بات کی اور آنے والے موسم گرما میں پانی کی شدید قلت کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا۔
عمرعبداللہ نے کہا”بہت زیادہ گرمی ہے۔ نہ مرکز کی طرف سے، نہ لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے، نہ کسی افسر کی طرف سے بلکہ موسم کی طرف سے۔ یہ گرمی دراصل مجھے پریشان کر رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو موسم گرما میں ہمارے پاس پانی کی قلت ہو جائے گی۔ یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہونے جا رہا ہے، جو کسی بھی دوسرے مسئلے سے بڑا ہے“۔
وزیر اعلیٰ نے ان قلتوں سے نمٹنے کی تیاری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کےلئے متعلقہ محکموں کے ساتھ ایک اجلاس طلب کیا ہے اور آنے والے دنوں میں انتہائی ضروری بارش یا برفباری کی دعا کی ہے۔
ان کاکہنا تھا”میں دعا کرتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں بارش ہو یا برف باری ہو۔ لیکن اس وقت، دن کا درجہ حرارت مارچ یا اپریل کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ مجھے واقعی ڈر ہے کہ اس گرمی کا ہم پر براہ راست اثر پڑے گا۔“