جی ہمیں بھی اس بات سے انکار کہاں کہ اللہ میاں کی مرضی اور منشا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے … بالکل بھی نہیں ہل سکتا ہے ۔ اس لئے جب اپنے قائد ثانی‘ڈاکٹر فاروق عبداللہ صاحب یہ کہتے ہیں توکہ ریاستی درجہ تب بحال ہو جائیگا جب اللہ میاں چاہیں گے‘ جب اللہ میاں کو منطور ہو گا تو… تو ان جناب کا کہنا بالکل صحیح ہے… سو فیصد صحیح ہے ۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہو تی ہے… اس لئے ختم نہیں ہو تی ہے کہ قائد ثانی کے بیٹے اور جموںکشمیر کے وزیر اعلیٰ ‘عمرعبداللہ دہلی سے جلد ریاستی درجے کی بحالی کی آس لگائے بیٹھے ہیں… اس آس‘ اس امید میں عمرعبداللہ نے کشمیر میں سارے اور بہت سارے لوگوں کو نارض بھی کیا ہے… جن کا جاننا اور ماننا ہے کہ عمرعبداللہ کو دہلی کے سامنے بھیگی بلی بننے کے بجائے اسے آنکھیں دکھانی چاہئیں اور… اور اس لئے دکھانی چاہئیں کیونکہ ان کے پاس منڈیٹ ہے… لیکن اپنے گورے گورے بانکے چھورے وزیر اعلیٰ ‘ دہلی سے کوئی ٹکراؤ‘ کوئی مخاصمت نہیں چاہتے ہیں… اور اس لئے چاہتے ہیں کیونکہ انہیں امید ہے کہ آج نہیں تو کل ان کی فرمانبرداری اور ان کی عاجزی دہلی کو جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے پر آمادہ کر سکتی ہے… قائل کر سکتی ہے… لیکن قائد ثانی ‘ جنہوں نے اپنے بال بالکل بھی دھوپ میں سفید نہیں کئے ہیں کی سوچ مختلف ہے… یالگتا ہے کہ مختلف ہے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ …کہ جس مناسب وقت کی بات کی جا رہی ہے…اس مناسب وقت کا ابھی وقت نہیں آیا ہے یا یہ کہ اس مناسب وقت کے آنے میں بہت سارا وقت لگے گا… اس لئے قائد ثانی اللہ میاں سے رجوع کررہے ہیں… رجوع ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ …کہ جس چیز کا انہیں انتظار ہے… شدت سے انتظار ہے ‘ اس چیز کے ہونے میں‘ ریاستی درجے کی بحالی میں وقت لگے گا … بہت وقت کیوں کہ بچپن سے ہم بھی یہی سنتے آئے ہیں… ہمیں بھی یہی سنایا گیا ہے کہ اللہ میاں کے ہاں ’دیر‘ ہے… اندھیر نہیں… یعنی اللہ میاں کے ہاں بھی ریاستی درجے کی بحالی میں وقت لگے گا … اس میں دیر ہو جائیگی … اورقائد ثانی ہمیں اور آپ کو اسی بات کیلئے تیار کرنا چاہتے ہیں… تیار رہنے کو کہہ رہے ہیں ۔ ہے نا؟