نئی دہلی//
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں دونوں ایوانوں میں زیادہ تر وقت حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان بحث و مباحثہ ہوتا رہا، صنعتکار اڈانی، کانگریس لیڈر سونیا گاندھی اور امریکہ کے متنازعہ سرمایہ کار جارج سوروس کے درمیان تعلقات، ‘نائب صدر جمہوریہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ، بابا صاحب امبیڈکر کی توہین اور کچھ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ دھکا مکی جیسے معاملات پر تعطل پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے کارروائی آسانی سے نہیں چل سکی۔
سرمائی اجلاس۲۵نومبر کو شروع ہوا اور آج یعنی جمعہ کو ختم ہوا۔ تعطل کی وجہ سے دونوں ایوانوں کی کارکردگی پچھلے اجلاسوں کے مقابلے کم ہوئی اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارکردگی بالترتیب صرف۸۷ء۵۷فیصد اور۰۳ء۴۰فیصد رہی۔
اپوزیشن پارٹیاں پہلے دن سے ہی دونوں ایوانوں میں اڈانی معاملے پر بحث کا مطالبہ کر رہی تھیں، اسی دوران حکمراں پارٹی نے محترمہ سونیا گاندھی اور جارج سوروس کے درمیان تعلقات کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر بحث کا مطالبہ کیا۔ جس سے تعطل پیدا ہو گیا اور کارروائی بار بار روک دی گئی۔
اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے راجیہ سبھا میں چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دیتے ہوئے ان پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا، جس پر حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔
آئین پر بحث کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے ایک بار پھر دونوں ایوانوں میں ہنگامہ کھڑا کیا، وزیر داخلہ امت شاہ پر بابا صاحب امبیڈکر کی توہین کا الزام لگایا اور شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ ان تمام معاملات پر تعطل کی وجہ سے دونوں ایوانوں میں کام کاج متاثر ہوا اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کارروائی خوش اسلوبی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
اجلاس کے دوران لوک سبھا میں۲۰؍اور راجیہ سبھا میں ۱۹سیشن ہوئے ۔ لوک سبھا میں پانچ بل اور چار بل راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے ۔ لوک سبھا میں چار اور راجیہ سبھا میں تین بل پاس ہوئے ۔ انڈین ایئر کرافٹ بل دونوں ایوانوں میں پاس ہو گیا۔
آئین کے ۷۵سال مکمل ہونے کی یاد میں۲۶ نومبر کو سنٹرل ہال میں یوم دستور کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے خطاب کیا۔ اس کے بعد۱۳؍اور۱۴دسمبر کو لوک سبھا میں اور۱۶؍اور۱۷دسمبر کو راجیہ سبھا میں ہندوستانی آئین کے۷۵سال کے سفر پر تفصیلی بحث ہوئی۔
لوک سبھا میں۶۲؍اراکین نے۱۵گھنٹے۴۳منٹ کی بحث میں حصہ لیا جبکہ راجیہ سبھا میں۸۰اراکین نے۱۷گھنٹے۴۱منٹ کی بحث میں حصہ لیا۔
۲۵۔۲۰۲۴کیلئے گرانٹس کے ضمنی مطالبات اور متعلقہ اختصاصی بل کو لوک سبھا میں تقریباً سات گھنٹے اور۲۱منٹ کی بحث کے بعد منظور کیا گیا۔
ون نیشن ون الیکشن سے متعلق آئین (۱۲۹ویں ترمیم) بل۲۰۲۴؍اور مرکزی زیر انتظام علاقوں (ترمیمی) بل ۲۰۲۴کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا، جنہیں۳۹رکنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو غور و خوض کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس کمیٹی میں لوک سبھا کے۲۷؍اور راجیہ سبھا کے۱۲ممبران ہیں۔
ادھرراجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکڑ نے ایوان کی کارروائی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کا آج اعلان کیا۔
راجیہ سبھا کا ۲۶۶واں اجلاس۲۵نومبر کو شروع ہوا۔ ایوان کے اس اجلاس میں۱۹سیشن ہوئے ۔ حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان ہنگامہ آرائی کے درمیان مسٹر دھنکڑنے ایوان کی کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے سے پہلے کہا کہ دنیا کی نظریں ہندوستان کی جمہوریت پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ ایوان بالا ہے اور اس کی خاص ذمہ داریاں ہیں۔
دھنکڑ نے کہا کہ اس اجلاس میں ایوان میں صرف۰۳ء۴۰فیصد کارکردگی رہی اور ایوان کی کارروائی صرف۴۳گھنٹے۲۷منٹ تک چلی۔ اسی سیشن میں آئل سیکٹر ترمیمی بل اور بوائلرز بل۲۰۲۴منظور ہوئے اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ہندوستان، چین تعلقات پر ایک بیان دیا۔
راجیہ سبھا کا اجلاس حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان شروع سے ہی تعطل کا شکار رہا۔ تاہم اس عرصے کے دوران ‘‘ہندوستانی آئین کے۷۵سالہ شاندار سفر’’ پر بات ہوئی۔ اسی سیشن میں آئین کو اپنانے کے۷۵سال مکمل ہونے پر دونوں ایوانوں کی ایک خصوصی میٹنگ بھی ایوانِ دستور کے سنٹرل ہال میں ہوئی جس سے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے خطاب کیا۔
دھنکڑ نے کہا کہ آئین کی۷۵ویں سالگرہ کے موقع پر اس سیشن کا اختتام کرتے ہوئے یہ سنجیدگی سے سوچنے کا وقت ہے ۔ تاریخی ایوان دستور میں یوم دستور منانے کا مقصد جمہوری اقدار کا اعادہ کرنا تھا۔
چیئر مین نے کہا کہ یہ تلخ حقیقت پریشان کن ہے ۔ پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے ہمیں ہندوستانی عوام کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے اور ‘یہ مسلسل رکاوٹیں ہمارے جمہوری اداروں پر عوام کے اعتماد کو ختم کر رہی ہیں‘۔
دھنکڑنے کہا کہ میڈیا کے ذریعے نوٹس کی تشہیر اور پارلیمانی بحث سے قبل رول۲۶۷کا سہارا لینے کا بڑھتا ہوا رجحان ادارہ جاتی وقار کو مزید مجروح کرتا ہے ۔ ہم ایک اہم سنگم پر کھڑے ہیں، ہندوستان کے۴ء۱بلین شہری ہم سے بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ بامعنی بحث اور تباہ کن خلل کے درمیان انتخاب کیا جائے ۔ ہماری جمہوری وراثت تقاضا کرتی ہے کہ ہم سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر پارلیمانی گفتگو کا تقدس بحال کریں۔