تو صاحب قصہ یہ ہے کہ اپنے ہمسایہ ملک کی نصف آبادی خط افلاس کے نیچے چلی گئی ہے… بیس بائیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں دس کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور… اور کہنے ولوں کاکہنا ہے کہ اس میں مزید اضافہ متوقع ہے… اس لئے متوقع ہے کہ ہمسایہ ملک کا جو موجودہ اقتصادی ماڈل ہے‘ ورلڈ بینک کے مطابق اس کے چلتے خط افلاس سے نیچے رہنے والے لوگ ‘ اس سے باہر نہیں آ سکیں گے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔موجودہ معاشی صورتحال کیلئے ذمہ دار خان صاحب … عمران خان صاحب اور…اور ہمسایہ ملک کے دوسرے سیاستدان سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہو ئے ہیں‘ اس لئے انہیں اس بات کا تصور بھی نہیں ہے کہ بھوک ‘ پیاس ‘ افلاس اور کھلی چھت کے نیچے زمدگی گزارنے کا کیا مطلب ہے… کیسے لوگ بنیادی سہولیات…روٹی‘کپڑا اور مکان کے بغیر جی لیتے ہیں… اس بات کا ہمسایہ ملک کے سیاستدانوں کو کوئی تصور نہیں ہے… ہو تا تو… تو آج اس ملک کی کم و بیش نصف آباد ی غربت اور افلاس کی زندگی نہیں گزار رہی ہوتی… یہ شرم کی بات ہے کہ… کہ جہاں دنیا کے بیشتر ملک اوران میں کچھ تو ہمسایہ ملک سے چھوٹے اور بہت چھوٹے ہیں… غریبی کو مٹا رہے ہیں‘ اپنے شہریوں کا معیار زندگی بہتر کررہے ہیں… اور … اور ایک ہمارا ہمسایہ ملک ہے پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے جا رہا ہے… اور… اور جس تیز رفتاری سے اس کے شہری خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں تو… تو وہ دن دور نہیں کہ جب ملک کی اکثریت غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیگی اور… اور اس لئے مجبور ہو جائیگی کیونکہ …اس ملک کے جو سیاستدان ہیں … وہ اپنے لئے جیتے اور مرتے ہیں… وہ سیاست بھی اپنے لئے کرتے ہیں… اپنے مفادات کیلئے کرتے ہیں… جیسے اپنے خان صاحب ‘ جیسے اپنے میاں برادران ‘ جیسے اپنے زرداری صاحبان ‘ جیسے اپنے مولانا فضل الرحمان صاحب اور جیسے اپنے چودھری برادران… ہمسایہ ملک اُس دن ترقی کرنا شروع کردے گا جب ان میں سے کوئی غربت کے دلدل میں پھنس جائیگا… لیکن ایسا ہو گا نہیں کیوںکہ ان سب سیاستدانوں نے غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین چھین کر اپنی تجوریاں اتنی بھر دی ہیں کہ … کہ اگر ساری دنیا بھی غریب ہو جائیگی… ان کے خزانے کم نہیں ہوں گے … اور بالکل بھی نہیں ہوں گے ۔ہے نا؟