یہ وہ اسمبلی نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں‘ ہم ایک مکمل اسمبلی چاہتے ہیں‘ جس کا وعدہ وزیر اعظم نے کیا تھا‘‘
’الیکشن کے دوران لوگوں سے جو بھی وعدے کئے انہیں پورا کرنے کیلئے ایک دن بھی ضائع نہیں کروں گا‘
سرینگر//(ندائے مشرق خبر)
وزیر اعلیٰ ‘عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کو ایک ریاست بنانے کا عمل جلد شروع ہو جائیگا ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکزی قیادت اس ضمن میں جموں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرے گی ۔
اسمبلی میں آج ایل جی‘ منوج سنہا کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کا جواب دیتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ حال میں ہی ان کی دہلی میں وزیر اعظم نریندرا مودی اور وزیر داخلہ ‘ امت شاہ سے ہوئیں ملاقاتیں کامیاب رہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وزیر اعظم نے بار بار جموں کشمیر کے لوگوں سے کہا ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیا جائیگااور ان سے ملاقات کے دوران میں نے انہیں یہ وعدہ یاد دلایا ۔ان کاکہنا تھا’’یہ وہ اسمبلی نہیں ہے جو ہم چاہتے ہیں… ہم ایک مکمل اسمبلی چاہتے ہیں، جس کا وعدہ وزیر اعظم نے کیا تھا‘‘۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ بہت جلد جموں کشمیر کو ایک مکمل ریاست بنانے کا عمل شروع ہو جائیگا۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو عزت سے رہنے کا حق ہے ۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’ہم کیوں ریاستی درجے کی بحالی کی مانگ کررہے ہیں ۔ہم ایسا اس لئے کررہے ہیں کیوں کہ ہماری شناخت‘ ہماری پہچان‘ ہمارے وجود‘ ہمارے وقار کو جو زخم لگا ہے ان پر مرحم کیلئے ہمیں ریاستی درجہ حاصل کرنا ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ وہ اسمبلی نہیں جس کا ’ہم حق رکھتے ہیں،لیکن یہ اس تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے تاکہ جموں کشمیر ایک مکمل ریاست بنے کوئی ہائبرڈ ماڈل نہیں ‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جموں کشمیر کی زمین ‘ یہاں کی نوکریاں اور یہاں کے وسائل پر پہلا حق یہاں کے لوگوں کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کے لوگوں نے محنت کرکے ‘اپنا ٹیکس دے کر جو کچھ بنایا ہے اسے بیچا نہیں جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ سرمایہ داروں کا استقبال کرتے ہیں لیکن ’’ہم گلمرگ اور نہ پہلگام کو بیچیں گے ‘‘۔
اسمبلی میں پاس کی گئی خصوصی حیثیت کی بحالی کی قرار داد پر نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جو ایسا کہہ رہے ہیں انہوں نے پہلے اس کی حمایت کی ۔ ان کاکہنا تھا’’قرار داد پاس ہونے کے بعد وہ میرے پاس آئے ‘ مجھے مبارکباد دی ‘ گلے لگایا اور اسے تاریخی قرار دیا ۔پھر یہ تاریخی قرار داد دس پندرہ منٹوں میں ’سمجھوتہ‘ کیسے بن گئی مجھے معلوم نہیں ‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا’’ایسی قرار داد لانا جومرکز فوراً مسترد کر دے کوئی بھی بے قوف کر سکتا ہے ۔ اس میں کون سی عقلمندی ہے ۔ میں ابھی دو جملے لکھوں گا‘آپ سے پڑھوا لوں گاجسے نظر انداز کرنے میں پھر پانچ منت بھی نہیں لگیں گے ۔لیکن ایک ایسی قرار داد اسمبلی سے پاس کرانا جس سے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہو پائے‘جس سے دنیا کو پتہ چلے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹کے فیصلے میں ہماری رائے نہیں لی گئی ‘ہماری منظوری اس میں شامل نہیں تھی ۔اور ہم چاہتے ہیں کہ جموں کشمیر کو اس کا خصوصی درجہ واپس ملے اور وہ قرار داد فوری طور پر مرکز سے مسترد ہو نہ پائے ‘میں تو کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی کا ثبوت آپ کو کیا چاہیے ‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ’’اگر ہم نے ایسی قرار داد لائی ہو تی جو فوری طور پر مسترد ہوتی ‘ جن لوگوں کے اشاروں پر یہ اب شور کررہے ہیں ‘وہ کہتے کہ اس اسمبلی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔اس اسمبلی کی توہین ہو ئی اور یہ لوگ خاموش رہے ۔جموںکشمیر اسمبلی بے اختیار ہے ۔بہتر ہے یہ لوگ گھر جا کر بیٹھ جائیں ۔ان کا کوئی مطلب ہی نہیں ۔لیکن کچھ تو اس قرار داد میں ہے کہ آج بھی تقاریر میںوزیر اعظم اور وزیر داخلہ اس قرار داد کے حوالے سے بات کرکے ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں ‘‘۔
قرار داد کا دفاع جاری رکھنے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا ’’اگر یہ کوئی سمجھوتہ ہو تا ‘ اگر یہ قرار داد کمزور ہو تی ‘ اگر اس میں کچھ ہوتا نہیں تواس قرار داد کا کہیں کوئی تذکرہ ہوتا ہی نہیں۔خاموش رہتے ‘اس کے حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسمبلی نے جو قرار داد پاس کی وہ واقعی ایک تاریخی قرار داد ہے ‘اس سے دروازے کھل جاتے ہیں ‘دروازے بند نہیں ہو تے ہیں ۔ہمیں مستقبل کی طرف نظر رکھنی ہے یہ دیکھتے ہو ئے کہ ماضی میں ہمارے پاس کیا تھا ۔ہم کوئی الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے جس سے ہم کسی دائرے میں بند ہوں یا ہمارے آپشنز محدود ہوں۔اسی لئے ہم نے جان بوجھ کے جموںکشمیر کے خصوصے درجے کے حوالے سے بات کی ‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ مرکز کی حکومت سے جموں کشمیر کو کچھ زیادہ ملنے کی امید نہیں ہے ۔ان کاکہنا تھا ’’لیکن یہ ہمیشہ کیلئے نہیں ہوں گے ۔کبھی نہ کبھی تو نظام بدلے گا ۔کبھی نہ کبھی تو حالات بدل جائیں گے ۔تو ہم کیوں پہلے ہی خود کو کسی دائرے میں بند کریں ‘اور کہیں گے کہ ہم اتنا ہی آپ سے مانگیں گے ‘ اس سے زیادہ نہیں ۔اسی لئے ہم نے سوچ سمجھ کر ایسے الفاظ استعمال کئے کہ کل کو ممکن ہے کہ میری حکومت نہیں ہو گی ‘کوئی اور یہاں بیٹھا ہو گا اور مرکز میں بھی حکومت بدل گئی ہو گی ۔ان کیلئے ایک نقش راہ بنانا ہے ‘ان کیلئے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا زیادہ آسان ہو گا ‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس قرار داد کے پاس ہونے کے بعد انہیں ایک اور احساس ہوا اور ’’مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ لوگوں کو اپنی آواز واپس مل گئی ۔لوگ بات کر پا رہے ہیں ۔’’ہمیں ایک گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی ۔لگ رہا تھا کہ ہم بات نہیں کر سکتے ہیں ۔اپنے اندر کے جو خیالات ہیں ‘ان کا اظہار ہم نہیں کر سکتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کے کندھوں کے اوپر جو ایک بوجھ تھا ‘دباؤ تھا وہ اٹھ گیا ہے،مجھے اس بات کی بھی تسلی ہے کہ کئی سارے وہ لوگ جو پانچ سال مکمل خاموش ہو گئے تھے‘جن کے قلم چلنا بند ہو گئے تھے ‘ جن کے کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر زنگ لگ گیا تھا ‘جو سوشل میڈیا کو بھول گئے تھے ‘آج اچانک انہیں بھی اپنی آواز بحال کرنے کا موقع مل گیا ۔گزشتہ پانچ برسوں سے وہ بول کیوں نہیں پا رہے تھے اس میں‘ میں کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں … لیکن اچھی بات ہے کہ آج کم از کم وہ خود کو اتنا آزاد محسوس کررہے ہیں کہ وہ کھل کر اپنی بات سامنے لاتے ہیں ۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جب انہوں نے پچھلی بار ایوان میں تقریر کی تھی تو جموں کشمیر ایک ریاست تھی اور ملک میں اس کا ایک خاص مقام اور حیثیت تھی۔انہوں نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ کو آرٹیکل۳۷۰ کے تحت خصوصی حیثیت ختم کرنے اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’یہ سب چھین لیا گیا ہے‘‘۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ جموں و کشمیر اسمبلی کا پہلا اجلاس مدت کے لحاظ سے مختصر لیکن ایجنڈے کے لحاظ سے تاریخی ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے طویل عرصے کے بعد ایوان میں اس طرح کی بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ ’’مارچ ۲۰۱۴ میں میں نے گورنر کے خطاب پر بطور وزیر اعلیٰ اور ۲۰۱۸ میں اپوزیشن کی حیثیت سے بات کی تھی۔ اس کے بعد سے بہت کچھ بدل گیا ہے اور ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے‘‘۔انہوںنے کہا کہ جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یقین نہیں آتا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ چونکہ جموں کشمیر ایک یو ٹی ہیاس لئے امن و قانون اور ملی ٹنسی مخالف آپریشن ‘پالیسی اور اس ضمن میں ہدایات دینا منتخبہ حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت اور پولیس میں کوئی رسہ کشی یا کنفیوژن ہے ۔ انہوں نے کہا ’’میں جموں کشمیر پولیس اور سکیورٹی فورسز کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ قیام امن کی کوششوں میں حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے ‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ اگر جموں کشمیر میں امن نہیں ہو گا تو ترقی کے کام بھی رک جائیں گے ۔ انہوں نے کہا ’’حالات کو ٹھیک رکھنا ہماری بھی ذمہ داری ہے تاکہ ترقی کا دور شروع کرنے کا لوگوں کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کیا جا سکے ‘‘۔
وزیر اعلیٰ نے کہا جموں کشمیر میں امن قائم کرنے کے دو راستے ہیں ایک لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اور دوسرا الوگوں کا تعاون حاصل کرکے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈرا دھماکر امن قائم کرنا دیر پا ثابت نہیں ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ’’میں وہ دور دیکھنا چاہتا ہوں جب لوگوں کے تعاون سے امن قائم ہو ‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ سی آئی ڈی ویریفکیشن کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ چاہے وہ ویریفکیشن پاسپورٹ کے حصول کیلئے تھی یا پھر سرکاری ملازمت حاصل کرنے کیلئے ۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی ڈی ویریفکیشن کے نام پر لوگوں کو تنگ کیا گیا ۔’’اب اس رویہ کو نرم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کو راحت مل سکے ‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے الیکشن کے دوران لوگوں سے جو وعدے کئے انہیں پورا کیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ بھرتی مہم میں تیزی لائی جائیگی ۔بجلی کے دو سو مفت یون ٹ فراہم کرنے کے وعدے کو عملی جامہ پہنایا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ گیس سلنڈروں اور راشن کوٹا میں اضافے کا اعلن بھی جلد کیا جائیگا ۔