سرینگر//
ہندوستانی فوج کے ذرائع نے بتایا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان مشرقی لداخ کے دیپسانگ اور ڈیمچوک میں فوجیوں کے انخلا کا عمل چہارشنبہ کے روز مکمل ہوگیا۔
ذرائع نے بتایا کہ انخلا کے بعد دونوں فریق جلد ہی اپنے اپنے علاقوں میں مربوط گشت شروع کریں گے۔
ذرائع نے کہا کہ مشرقی لداخ کے دیپسانگ اور ڈیمچوک میں ہندوستان اور چین کے درمیان انخلا کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ جلد ہی دونوں اطراف سے مربوط گشت شروع ہونے والا ہے۔ زمینی کمانڈر بات چیت جاری رکھیں گے۔
فوج کے ذرائع نے بتایا کہ دیوالی کے موقع پر مٹھائیوں کا تبادلہ کل ہونے والا ہے۔
بھارت اس دیرینہ تنازعے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ علاقے میں چینی جارحیت کے آغاز سے قبل اپریل ۲۰۲۰ سے قبل کی صورتحال کو بحال کیا جا سکے۔
جمعے کے روز چینی وزارت خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ دونوں ممالک کے سرحدی دستے سرحدی امور پر طے پانے والے معاہدے کے مطابق’متعلقہ کام‘ میں مصروف ہیں۔
ایک پریس بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جیان نے کہا کہ یہ کام’آسانی سے‘آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہندوستان اور چین نے کشیدگی والے مقامات سے فوجیوں کی واپسی شروع کر دی ہے، جیان نے کہا’’سرحدی مسائل پر حالیہ قراردادوں کے مطابق، چینی اور ہندوستانی سرحدی دستے متعلقہ کاموں میں مصروف ہیں، جو فی الحال آسانی سے آگے بڑھ رہے ہیں‘‘۔
۲۱؍ اکتوبر کو ہندوستان نے مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر گشت کے لئے چین کے ساتھ ایک معاہدے کا اعلان کیا ، جس سے چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری فوجی تعطل ختم ہوگیا۔
قبل ازیں وزیر اعظم نریندر مودی نے روس میں برکس سربراہ اجلاس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی، جہاں دونوں رہنماؤں نے مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر گشت کے انتظامات سے متعلق معاہدے کا خیرمقدم کیا۔
یہ میٹنگ وزارت خارجہ کی جانب سے ہندوستان چین سرحدی علاقوں میں ایل اے سی کے ساتھ گشت کے نئے انتظامات کے بارے میں اعلان کے بعد ہوئی۔
ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تعطل ، جو ۲۰۲۰ میں ایل اے سی کے ساتھ مشرقی لداخ میں شروع ہوا تھا ، چینی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے شروع ہوا تھا اور اس کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات میں طویل تناؤ پیدا ہوا تھا۔
اس دوران بھارت میں چین کے سفیر سو فیہونگ کا کہنا ہے کہ ’’صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان انتہائی اہم ملاقات کے حوالے سے اب جبکہ دونوں رہنما کئی اہم مفاہمتوں پر پہنچ چکے ہیں تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات کی مزید ترقی کے لیے ایک رہنما اصول ہوگا‘‘۔
سفیر کاہکنا تھا’’مجھے امید ہے کہ اس اتفاق رائے کی رہنمائی میں ہمارے تعلقات مستقبل میں آسانی سے آگے بڑھیں گے اور ہمارے تعلقات دونوں فریقوں کے درمیان مخصوص اختلافات کی وجہ سے محدود یا متاثر نہیں ہوں گے‘‘۔
سفیر سو فیہونگ نے کہا ’’ دو ہمسایہ ممالک کی حیثیت سے یہ فطری ہے کہ ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اختلافات سے کیسے نمٹا جائے اور انہیں کیسے حل کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اہم ہے‘‘۔
ہندوستان اور چین کے درمیان براہ راست پروازوں کی بحالی سے متعلق ایک سوال پر چینی سفیر نے مزید کہا’’میں براہ راست پروازوں کا بھی انتظار کر رہا ہوں تاکہ میں براہ راست بیجنگ واپس جا سکوں۔ میں جانتا ہوں کہ۲۰۲۰ سے پہلے، ہمارے پاس براہ راست پروازیں تھیں، لہذا اگر ہمارے پاس براہ راست پروازیں ہوں تو یہ سب کیلئے زیادہ آسان ہوگا۔اس سے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی۔‘‘